شام میں متعین روسی فوجیوں کو سفارتی تحفظ کا سمجھوتہ

Russian Troops

Russian Troops

شام (جیوڈیسک) روس کی پارلیمنٹ نے شام کے صدر بشارالاسد کے ساتھ حکومت کو ایک معاہدہ کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کے تحت ماسکو شام میں اپنی فوج غیرمعینہ مدت تک تعینات رکھ سکے گا۔ اس کے بدلے میں شامی حکومت نے اللاذقیہ شہر میں قائم ’حمیمیم‘ فوجی اڈے پر تعینات روسی فوجیوں کو سفارتی تحفظ فراہم کرنے کا پابند ہو گا۔ یوں شام میں تعینات رہتے ہوئے روز مرہ کی بنیاد پر جنگی جرائم کے ارتکاب کے باوجود روسی فوجیوں کے خلاف کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہیں سے بچا جا سکے گا۔

اسی نوعیت کے ایک خفیہ سمجھوتے کا انکشاف 10 ماہ قبل امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے بھی کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ شامی حکومت نے اپنے ملک میں روسی فوج کے قیام انہیں سفارتی تحفظ فراہم کرنے کی تیاری کرلی ہے۔ مسلح روسی فوجیوں کی کارروائیوں پران کے خلاف کسی تیسرے فریق کی طرف سے کسی قسم کی قانونی چارہ جوئی نہیں کی جاسکے گی۔

دونوں حکومتوں کے درمیان طے پائے خفیہ سمجھوتے کو عملی شکل دینے کے لیے روسی پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا۔ پارلیمنٹ [دوما] میں منظور کردہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ شام کے ساتھ طے پانے والے نئے معاہدے کے تحت ماسکو کو اضافی فوجی بجٹ صرف کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ فوج کے ضروری سازو سامان کے لیے درکاری بجٹ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نائب وزیر دفاع نیکولائے بانکوف نے کہا کہ فوج کے ضروری اخراجات کے لیے وزارت دفاع اسے سرمایہ فراہم کرنے کی پابند ہو گی۔

مسٹر بانکوف نے کہا کہ شام کے اللاذقیہ شہر کے حمیمیم فوجی اڈے پر تعینات فوجیوں اور ان کے اہل خانہ کو ایسے ہی سفارتی تحفظ حاصل ہو گا جیسے کہ کسی ملک کے سفارتی عملے کو دوسرے ملک میں حاصل ہوا کرتا ہے۔

روسی پارلیمنٹ کا اجلاس شام کی سرزمین پر
روس اور اسد رجیم کے درمیان گہرے دوستانہ تعلقات کے بعد نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ روسی پارلیمنٹ [دوما] کا اجلاس شام میں منعقد کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ روسی پارلیمنٹ کی تعلقات عامہ کمیٹی کے چیئرمین لیونید سلوسکی کا کہنا ہے کہ یہ بات خارج از امکان نہیں کہ دوما کے زیراہتمام تعلقات عامہ کمیٹی کا اجلاس اگلے چند ماہ کے دوران روس کے بجائے شام کی سرزمین پر منعقد کیا جائے۔

حمیمیم فوجی اڈے کی اہمیت
شام کے ساحلی شہر اللاذقیہ میں قائم ’’حمیمیم‘‘ یا ’باسل الاسد‘ فوجی اڈے کو شام کے اہم ترین سرکاری فوجی مراکز میں شمار کیا جاتا ہے مگر یہ فوجی اڈہ پچھلے ایک سال سے روسی فوج کے استعمال میں ہے۔ گذشتہ برس فروری میں جب روس نے شام میں باضابطہ فوجی کارروائیوں کا آغاز کیا تو اس اعلان کے دو ہفتے بعد روسی فوج کی بھاری نفری اسلحہ اور جنگی سازو سامان سمیت اس اڈے پر پہنچ گئی تھی۔

چند ماہ قبل روس کے نائب وزیر دفاع سیرگی شویگو جب شام کے دورے پرآئے تو انہوں نے صدر اسد سے دمشق میں ان کے شاہی محل میں ملاقات کے بجائے انہیں اسی فوجی اڈے پر ملاقات کے لیے بلایا تھا۔ روس کےنائب وزیر دفاع کے حکم پر بشارالاسد کا ملاقات کے لیے ایک فوجی اڈے پر جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ بشارالاسد کس حد تک روس کے مطیع و فرمان ہو چکے ہیں۔

پچھلے چند ماہ کے دوران اس فوجی اڈے پر روسی فوج کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔ روسی فوج نے اپنی مرضی سے اس فوجی اڈے پر ایک نیا رن وے بھی تیار کرایا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حمیمیم فوجی اڈے کی تیاری اور توسیع پر روس نے قریبا 3 کروڑ ڈالر خرچ کیے ہیں۔

روس نے شام میں فوجی کارروائیوں کو مربوط بنانے کے لیے اس فوجی اڈے پر ایک انٹیلی جنس اسٹیشن بھی قائم کیا ہے۔ ایک دوسری رصد گاہ شام کے صلفنہ شہر میں قائم کی گئی جسے ایرانی اور روسی ماہرین مل کر آپریٹ کرتے ہیں۔

چونکہ شام اس وقت عالمی طاقتوں کے درمیان مفادات کے تصادم کا اکھاڑا بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شام میں روسی فوج کے ساتھ ساتھ روسی ساختہ ہتھیاروں کی شام میں بھرمار ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ شام اس وقت روسی اسلحے کی مارکیٹ بن چکا ہے جہاں شامی فوج اور بشارالاسد کی حامی ملیشیائیں دھڑا دھڑ روسی جنگی ہتھیار خرید کر رہی ہیں۔