طیبہ یا شازیہ ہماری بیٹیاں

Taiba

Taiba

تحریر : واٹسن سلیم گل
گزشتہ ہفتے طیبہ کے حوالے سے سارا دن خبریں چل رہی تھی ہر چینل پر طیبہ کے حوالے سے بریکینگ نیوز چل رہی تھی۔ شام کا وقت تھا میں اور میری11 سالہ بیٹی سارہ ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے تھے وہ مجھے چینل تبدیل کرنے کے لئے زور لگا رہی تھی۔ مگر میں طیبہ کے ساتھ ہونے والے مظالم کی مضید تفصیل جاننا چاہ رہا تھا۔ پھر میری بیٹی نے طیبہ کی ٹی وی اسکرین پر بار بار آنے والی تصویر پر سوالات کھڑے کرنے شروع کر دیے۔ اسے بھی طیبہ کے چہرے اور ہاتھوں کے زخموں پر تشویش تھی وہ مجھے پوچھنے لگی کہ پاپا اس لڑکی کو کیا ہوا ہے۔ پہلے تو میں ٹالتا رہا مگر اس کے بے حد اسرار پر نے اسے طیبہ کی کہانی کو سینسر کر کے صرف 25 فیصد کہانی سُنائ ۔کہانی سُنانے کے بعد میں نے جلدی سے اسے گلے لگالیا وجہ یہ ہوئ کہ میں جب اسے طیبہ کی کہانی سُنانے لگا تو اس نے میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈال لیا اور پھر جیسے جیسے میں کہانے میں آگے بڑھا اس کی گرفت میرے ہاتھ پرسخت ہوتی گئ اور پھر مجھے احساس ہوا کہ وہ طیبہ کی کہانی سُن کر گھبرا گئ ہے۔ طیبہ پر ہونے والے ظلم نے ہمارے معاشرے کو برہنہ کر کے رکھ دیا۔

حالانکہ پاکستان میں کوئ ایک طیبہ نہی ہے۔ ہر گلی میں آپ کو ایک طیبہ کے چیخنے کی آواز سُنائ دے گی۔ طیبہ پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹتے رہے پر نہ تو ظلم کرنے والے خاندان کو خدا کا خوف اور اس کے رسول کی تعلیم خوفزدہ کر پائ اور نہ ہی اس بدقسمت بچی کے ماں باپ کو اپنی نازک گڑیا کے معصوم گالوں پر طمانچوں کے نشان نظر آئے ۔یہ بچی ماں کی گود میں سر رکھ رو نہی سکتی تھی اس بچی کا باپ بھی عجیب تھا کہ اگر یہ بچی اپنے باپ کے سامنے کسی پڑوسی کے لڑکے سے بات کر لیتی تو اسے غیرت کے نام پر کاٹ دیتا مگر اس بچی کے ساتھ زمانہ کیا کر رہا ہے اس بے غیرت باپ کو احساس ہی نہی تھا ارے اپنے آس پاس دیکھو لاکھوں طیبہ جیسی بچیاں اس بےشرم معاشرے کی سختیاں برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔

تاریخ میں ایک بیٹی پر جب غیروں نے ظلم ڈھائے تو اس نے محمد بن قاسم کو آواز دی مگر آج تو بیٹیاں اپنوں کے ہاتھوں چھلنی ہو رہی ہیں اب یہ کس کو پکاریں ۔ بھلا ہو میڈیا کا کہ اس بچی کا کیس سامنے آگیا ورنہ روزانہ اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں مگر حاکم وقت کے کان پر جوں تک نہی رینگتی ۔ اب تو لگتا ہے کہ میًڈیا ہی پولیس اور میڈیا ہی عدالت کے فرائض انجام دے رہا ہے. یہ ضروری نہی کہ دنیا میں سب کی قسمت میں تعلیم ، صحت اور پیٹ بھر روٹی ہو ۔ مگر ماں اور باپ کا پیار تو انسان اپنی پیدائش کے ساتھ تحفے کے طور پر ساتھ لاتا ہے ۔ مگر بہت سے بچیاں ہمارے معاشرے میں اپنے ماں باپ کے پیار کے لئے بھی ترستی رہ جاتی ہیں۔

ALLAH

ALLAH

طیبہ کے ساتھ غیر منصافانہ سلوک اس شخص کے گھر میں ہوا جسے خدا تعالیٰ نے زمین پر انصاف کا ضامن بنا کر دنیا میں بیجھا تھا جو جج کے فرایض انجام دے کر دوسروں کے لئے انصاف کی امید تھا ۔۔۔اس واقعہ کے سامنے آتے ہی مجھے 2010 میں شازیہ بشیر کا واقعہ یاد گیا وہ بھی ایک گیارہ سال کی بچی تھی ۔ اس بچی کے ساتھ بھی شرمناک سلوک کرنے والا اسی طرح قانون کا رکھوالا تھا۔ شازیہ لاہور کے معروف وکیل اور لاہور بار کے سابق صدر کے گھر پر ہزار روپئے ماہانہ پر ملازم تھی۔ اسے بھی اس کے ماں باپ سے ملنے کی اجازت نہی تھی۔ پڑوسی اس کی چیخیں بھی سنتے تھے۔ پھر ایک دن شازیہ کے ماں باپ کو شازیہ سے ملنے کی اجازت مل گئ مگر تب دیر ہو چکی تھی۔ طاقت کے نشے میں چُور وکیل صاحب نے ایک دن شازیہ کے ماں باپ کو فون کر کے ہسپتال میں بلایا کہ شازیہ سیڑھیوں سے گر کر ہلاک ہو گئ ہے۔

ماں باپ نے جب شازیہ کی لاش دیکھی تو ایک نظر میں ان کو سمجھ آ گیا کہ بچی پر بے پناہ تشدد کیا گیا ہے۔ اس کا ایک ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا پیٹھ پر اور ایک ٹانگ پر جلنے کے بہت سے زخم تھے۔ شور مچانے پر کچھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے جب پوسٹ مارٹم کروایا تو اس چھوٹی بچی کے ساتھ جنسی زیادتی بھی سامنے آئ۔ بہت سے مظاہروں اور آصف علی زرداری کے دباؤ کے بعد ایف آئ آر کاٹی گئ۔ مگر دفعات پھر بھی کمزور تھیں۔ ملزمان کو ابتدائ مرحلے میں گرفتار کیا گیا مگر جلد ہی وکیل صاحب باہر آ گئے۔ بعد میں شازیہ کے ماں باپ کو کیس سے پیچھے ہٹنے کے لئے پیسے کی آفر کی گئ۔ پھر اس کیس کا کیا بنا معلوم نہی۔

ہمارے لئے شازیہ ہو یا طیبہ دونوں ہی ہماری بیٹیاں ہیں ہمیں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو کسی قسم کی بھی تفریق سے بالا ہو کر ان کو انصاف فراہم کرنے کے لئے اپنی آواز بلند کرنی چاہئے۔ میں چیف جسٹس آف پاکستان کو سلوٹ کرتا ہوں کہ جن کے اس خبر پر ایکشن لینے سے اس بچی کو انصاف ملنے کے امکانات بہت روشن ہو گئے ہیں۔ اور مجھے نہی لگتا کہ اب کوئ بھی ادارہ اتنی جرات کر سکتا ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی آنکھوں میں دھول جھونک سکے ۔ اپنے ارد گرد پر نظر رکھیں اور کہیں بھی طیبہ جیسی بچی نظر آئے تو نظر چرانے کے بجائے اسے انصاف دلانے کے لئے اپنی آواز بلند کریں خدا تعالیٰ اس کا اجر ضرور دے گا۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر : واٹسن سلیم گل