ٹائینز (Tiens) کیا ہے؟؟؟

Unemployment

Unemployment

تحریر : محمد ذوالفقار
بزرگ کہتے ہیں جب تک اس دنیا میں لالچی زندہ ہیں ٹ ھگ کبھی بھوکے نہیں مر سکتے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ مختلف طریقوں سے لوٹتے ہیں اور ہماری بیچاری عوام بار بار لٹتی ہے اور اس کی بنیادی وجہ لالچ، غربت اور بیروزگاری ہے۔اسی لیے بہت ساری نام نہاد کمپنیاں ہماری اس کمزوری کا فائدہ اٹھارہی ہیں۔ ایسی کمپنیز کے اشتہارات سے اخبارات بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ہر تحصیل، ضلع کی سطح پر ملازمت کے مواقع، وغیرہ۔

مختلف ادوار میں لوگوں کو لوٹنے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جاتے ہیں اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کبھی کسی نے اس امر کی حوصلہ شکنی کرنے کی جسارت نہیںکی۔آج بھی بہت ساری کمپنیزاس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہی کمپنیز میں سے ٹائنز(tiens) بھی ایک ہے جو بہت منظم طریقے سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔اس کمپنی کا احوال بیان کرنے سے پہلے ایک بات بتانا بہت ضروری ہے کہ ہمارے بہت سارے لوگ اس میں جانے یا انجانے میں بری طرح پھس چکے ہیں جو چاہتے ہوئے بھی اس چنگل سے نہیں نکل سکتے۔کیونکہ جو شخص اس کمپنی میںملازمت حاصل کرنا چاہتا ہے اسے سب سے پہلے رجسٹریشن کے لیے1300روپے جمع کروانا ہونگے اور پھر ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے پاس کی ضرورت ہوگی جس کے لیے 700روپے الگ سے وصول کیے جاتے ہیں۔اس طرح اسے صرف دھوکے کی ٹریننگ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے2000روپے سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔

اب ٹریننگ کے نام پر ناٹک شروع ہوتا ہے ۔ ایک دبنگ انداز میںایک متاثر کن شخصیت کلاس نمودار ہوتی ہے ۔جس کے استقبال کے لیے کلاس میں بیٹھے سب خواتین وحضرات فوراکھڑے ہو جاتے ہیں ۔یہ شخصیت کوئی اور نہیں ہم لوگوں میں سے ہی چنا ہوا ایک فریبی شخص ہوتا ہے۔جو اس فریب کے گورکھ دھندے کو اچھی طرح سمجھ چکا ہے اور اب دوسروں کو فریب دینے کا فن سکھانے کے لیے حاضر خدمت ہے۔سب سے پہلا جملہ میں آپ سب لوگوں کوٹائینزجیسی کامیاب کمپنی کا حصہ بننے پر دل کی اتھاہ گہرایوں سے خوش آمدیدکہتا ہوں۔کلاس میں موجود ایک شخص کو کھڑا کیا جاتا ہے۔

آپ کا نام ؟ محمد جمیل(فرضی نام)جناب! جمیل صاحب آپ ہماری کمپنی کے ایک سٹار ہیں اور آج ہم آپکوسیکھائیںگے کہ آپ کس طرح تھوڑی سی محنت کرکے ایک سٹار سے بن سکتے٨سٹارمینیجر اور حاصل کر سکتے ہیں لاکھوںروپے کا بونس اور گاڑی بھی۔ہمارا یہ پلیٹ فارم ان تمام لوگوں کے لیے ہے جو کچھ کرنا چاہتے ہیںاور میں امید کرتا ہوں آپ بہت ترقی کریں گے ۔بس ضرورت ہے لگن اور محنت کی اور اگر آپ ایمانداری سے محنت کرتے ہیں تو وہ دن دور نہیں جب آپ بھی ایک گاڑی کے مالک ہونگے اور آپ بھی امیر بننے کا خواب پورا کر سکتے ہیں۔جمیل خیالوں ہی خیالوں میں امیر ہو چکا ہوتا ہے ۔اس طرح کی ڈھیر ساری چکنی چپڑی باتوں کے بعد نام نہاد پروفیسر صاحب پوری ایمانداری سے بے ایمانی کا پاٹ پڑھانا شروع کرتے ہیں ۔اب ہم چلتے ہیں اہم نقطے کی طرف یہ کام ہوتا کیسے ہے۔

جمیل آپ کو صرف 35000روپے کی معمولی سرمایہ کاری سے لاکھوں روپے کا فائدہ ہونے والا ہے اور یہ 35000 بھی آپکے ضائع نہیں ہونگے بلکہ آپ ان پیسوں سے کمپنی کی مختلف اشیاء خریدیں گے یا پھر کسی قریبی رشتہ دار کا معائینہ بھی کروا سکتے ہیں۔اس سرمایہ کاری کے بعدآپ اپنا کام شروع کر سکتے ہیں ۔بس آپکو 4چار اور لوگ کمپنی میں بھرتی کروانا ہونگے۔اب آپ سوچ رہے ہونگے کہ اس سے آپکو کیا ملے گا ؟آپکو ملے گا پورے 20000بیس ہزار کا بونس۔ اورآپ تھری سٹار مینیجر بھی بن جائیں گے۔۔ اسطرح آپکی ڈاون لائن شروع ہو جائے گی۔اسی طرح اگر وہ چار افراد بھی مزیدچار چار افراد کو کمپنی میں بھرتی کرواتے ہیں تو جہاں ان چار افراد کو بیس ،بیس ہزار ملیں گے وہیں آپکو بھی ملے گا پورا 4%یعنی پورے بائیس ہزار چار سو روپے۔اور آپ بن جائیں گے 5سٹار مینیجر ۔پروفیسر صاحب تالیوں کی صورت میں داد سمیٹتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور جمیل سے مخاطب ہوتے کہتے ہیں کہ اگر آپ اپنی ٹیم کو ساتھ لے کر چلتے ہیں اور مزید محنت کرتے ہیں اور آپ کے سولہ آدمی مزید چار چار لوگوں کو کمپنی میں بھرتی کرواتے ہیں تو اس پر بھی آپکو 89600 نواسی ہزارچھ سوروپے کا بونس ملے گا۔

Tiens

Tiens

آپکے ٹیم ممبرز کو بھی بونس ملے گا۔اور اس دفعہ آپ بن جائیں گے چھ ستاروں کے مالک۔ ۔اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر آپکی ڈائون لائین کے چونسٹھ ممبران مزید چار چار افراد کو کمپنی میں متعارف کرواتے ہیں تو آپکی ڈائون لائین256 افراد پر مشتمل ہوگی جس پر آ پ سات سٹار کے مینیجر بن جائیں گے۔جس پرملے گی ایک عدد1000ccکار ۔اور 4%کے حساب سے پورے تین لاکھ اٹھاون ہزارروپے نقد۔اور اگر یہ ڈائون لائین 256سے بڑھ کر 1024افراد تک پہنچ جاتی ہے تو آپ آٹھ ستاروں کے مالک بن جائیں گے جس پر آپکو ملے گا پورے چودہ لاکھ تینتیس ہزار چھ سو روپے کا بونس اور یہی نہیں بلکہ اس دفعہ آپکو ملے گی 1700ccکار۔اور اس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔او ر ٹریننگ کی کلاس اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔جمیل کی آنکھوں میںایک چمک دکھائی دے رہی تھی۔کیونکہ وہ گاڑی کا مالک بھی بن چکا تھا اور اس کے ساتھ وہ کم از کم لکھ پتی تو بن ہی چکا تھا۔اب یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ یہ کلاس چھوڑ کر ایسے ہی چلا جائے۔اب تو وہ تمام رنگین سپنے سجائے لوگوں کو اس فریب کی راہ میں لانے کے لیے بے تاب ہو رہا تھا ۔کیونکہ وہ خود اس فریب میں بری طرح پھس چکا ہے۔

اب اگر حقائق سے پردہ اٹھایا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ سارا ڈرامہ صرف اس لیے رچایا جاتا ہے تا کہ کسی بھی طرح جمیل اور اس جیسے بہت سارے دوسرے لالچی اور مجبور افراد سے ان کی مجبوری اور بھولے پن کا فائدہ اٹھا کر ان سے 35000کی رقم وصول کی جائے اور اگر کچھ لوگوں کو وہ قائل نہ بھی کر سکیں تو 2000دو ہزار روپے کی رقم تو وہ بٹور ہی چکے ہوتے ہیں۔اور جو شخص پینتیس ہزار کی قلیل رقم دے چکا ہوتا ہے اب وہ کسی بھی طرح اپنے دیئے ہوئے پیسے پورے کرنے کے لیئے کم از کم چار اور لوگوں کو تو ضرور بھرتی کروانے کی کوشش کرتا ہے۔اس طرح بہت سے افراد جانے یا انجانے میں لٹتے ہیں۔کیونکہ نا تو یہ کوئی کمپنی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی وجود۔اگر اس کمپنی کی ویب سائٹ کو دیکھا جائے تو وہاںپر جو معلومات درکار ہیں اس کے مطابق یہ فارماسیوٹیکل کا کام کرتی ہے۔جبکہ اس کا ہیڈ آفس چین میں ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میںان کی ایک سیل ایجنٹ کیمطابق تقریبا پندرہ سو آفس ہیں مگر فیکٹری کہاں ہے کسی کو کچھ پتہ نہیں اور نہ ہی عام بازار میں ان کی اشیاء دستیاب ہیں جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ان کی قدروقیمت کیا ہے۔ان کی جعلسازی کا سب سے بڑا ثبوت یہ کہ کوئی بھی شخص ان اشیاء کو فروخت کر سکتا ہے چاہے اس کے پاس فارماسیوٹیکل کی ڈگری ہے یا نہیں۔ان کو مطلب ہے صرف اپنے پیسوں سے۔اور اگر کچھ لوگ یہ کہیں کہ جناب ہم آٹھ سٹار مینیجر بن چکے ہیں اور ہمیںیہ سب کچھ مل چکا ہے تو ان کو بھی شرم آنی چاہیے کیونکہ ایک سٹار سے لے کر آٹھ سٹار تک کے تمام عہدے داران کو بونس اور گاڑی کی مد میں وصول ہونے والی مجموعی رقم تقریبا ایک کروڑبہتر لاکھ تیس ہزارچھ سو روپے بنتی ہے جو کہ مجموعی رقم کا تقریبا 34% بنتی ہے۔

جبکہ اس کے بدلے میں وہ لوگوں سے تقریبا پانچ کروڑ چار لاکھ نوے ہزار روپے اشیاء کی مد میں وصول کر چکے ہوتے ہیں۔یہ سب تو اس صورت میں ممکن ہے اگر کمپنی اپنی طے کردہ پالیسی پر من و عن عمل درآمد کرے مگر ایسا ہوتا نہیں ۔کیونکہ اس سے پہلے بھی شینل نام کی کمپنی اسی طرح کام کرتی تھی آج اسکا نام تک نہیں۔اسطرح کی کمپنیاں لوگوں کے ساتھ فراڈ کرتی ہیں اور جب یہ کبھی حکام بالا کی نظروں میں آ جائیں تو لوگوں کا مال ہڑپ کرکے چلتی بنتی ہیں۔حکام بالاکو چاہیے کہ ایسی نام نہاد کمپنیز کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائیں اور اپنے ملک و قوم کے سرمائے کو محفوظ بنائیں۔اور ایسے تمام لوگوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے جو ہمارے وطن عزیز کو اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں اور ہمارے ملک کی معشیت کو کمزور کر رہے ہیں۔

Mohammad Asif

Mohammad Asif

تحریر : محمد ذوالفقار
zulfiqarjutt55@gmail.com