تہران حملوں میں 12 ہلاکتیں، داعش نے ذمہ داری قبول کر لی

Tehran Attacks

Tehran Attacks

تہران (جیوڈیسک) خودکش حملہ آور اور مسلح افراد نے آج بدھ سات جون کو ایرانی دارالحکومت تہران میں ملکی پارلیمان کی عمارت اور ایرانی انقلاب کے سربراہ آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر دہشت گردانہ حملے کیے۔ ایرانی میڈیا اور حکام کے مطابق ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 12 ہے۔

ایرانی دارالحکومت میں کیے گئے ان دونوں حملوں کی ذمہ داری دہشت گرد گروپ داعش نے قبول کر لی ہے۔ داعش کی طرف سے ایران میں اس طرح کی یہ پہلی کارروائی ہے۔ داعش کی طرف سے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے، جس میں مسلح افراد کو پارلیمان کی عمارت کے اندر دکھایا گیا ہے جبکہ ایک شخص زخمی حالت میں فرش پر گرا نظر آتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے داعش کی پروپیگنڈا ایجنسی کے حوالے سے لکھا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے آیت اللہ خمینی اور ایرانی پارلیمان کی عمارت پر حملے کیے ہیں۔ ایجسنی کے مطابق دو حملہ آوروں نے خود کو خمینی کے مزار پر دھماکے سے اڑا دیا۔ ابھی تک دیگر کسی ذریعے سے داعش کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہوئی۔

ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی تسنیم نے ملک کے نائب وزیر داخلہ حسین ذوالفقاری کے حوالے سے بتایا ہے کہ حملہ آور خواتین کے لباس میں پارلیمان کے مرکزی راستے سے اندر داخل ہوئے۔ ذوالفقاری کے مطابق ان میں سے ایک کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا جبکہ ایک نے اپنی خودکش جیکٹ دھماکے سے اڑا دی۔

اس حملے سے متعلق ابتدائی رپورٹوں کے قریب چار گھنٹے بعد ایرانی نیوز ایجنسیوں نے بتایا کہ پارلیمان پر حملہ کرنے والے چاروں افراد کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ایران کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پیر حیسن کولیوند کے بقول حملہ آوروں نے کم از کم 12 افراد کو ہلاک کر دیا۔

ایک صحافی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ’’میں پارلیمنٹ کے اندر ہی تھا جب فائرنگ شروع ہوئی۔ ہر کوئی پریشانی اور خوف میں مبتلا تھا۔ میں نے دو افراد کو دیکھا جو اندھا دھند فائرنگ کر رہے تھے۔‘‘

حسین ذوالفقاری کے بقول پارلیمان پر حملے کے فوری بعد ایک اور خودکش حملہ آور نے تہران کے جنوبی حصے میں واقع انقلاب ایران کے سربراہ آیت اللہ خمینی کے مقبرے پر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔