دہشت گردی کے خاتمے میں افغانستان کا تعاون ضروری ہے

Terrorism

Terrorism

تحریر : محمد اشفاق راجا
دہشت گردی کے خاتمے میں افغانستان کا تعاون ضروری ہے مردان میں ضلع کچہری کے گیٹ پر خود کش دھماکے کے نتیجے میں دو پولیس اہل کاروں اور چار وکلاء سمیت 14 افراد شہید اور 54 زخمی ہو گئے، خود کش حملہ آور نے ضلع کچہری کے گیٹ پر پہلے دستی بم پھینکا اور پھر کچہری کے اندر دھماکہ کرنے کے لئے آگے بڑھنے کی کوشش کی تاہم وہاں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہل کار نے اپنی جان پر کھیل کر حملہ آور پر فائرنگ کر دی اور اسے آگے بڑھنے سے روک کر بڑے نقصان سے بچا لیا اس دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے دوسرے واقعہ میں وارسک کرسچین کالونی میں چار خود کش حملہ آوروں نے علی الصباح فائرنگ شروع کر دی جس کے جواب میں سیکیورٹی فورسز نے کارروائی کی۔ ایک بمبار گولی کا نشانہ بن گیا جب کہ تین نے خود کو اڑا لیا، ایک شہری جاں بحق ہوا۔

آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے مردان کا دورہ کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ آخری دہشت گردکو ختم کر کے دم لیں گے۔مردان کے خودکش دھماکے نے چودہ قیمتی جانیں لے لیں تاہم دہشت گرد کا مشن اس لحاظ سے ناکام ثابت ہوا کہ وہ اپنے ہدف تک نہ پہنچ سکا وہ کچہری کے اندر جا کر عدالتی افسروں اور بار روم میں وکلا کو نشانہ بنانا چاہتا تھا لیکن جرآت مند کانسٹیبل جنید نے اسے گیٹ پر روک لیا اور اس امر سے بے نیاز ہو کر کہ حملہ آور خود کو اڑا لے گا اس نے اس کا پیچھا کیا۔ دہشت گردی کی اس واردات میں جرآت و بہادری کی روشن مثالیں سامنے آ رہی ہیں ورنہ شاید کوئٹہ جیسا سانحہ رونما ہو جاتا جہاں بڑی تعداد میں وکلاء شہید ہو گئے تھے۔ اسی طرح وارسک کی کرسچین کالونی میں چار خود کش بمبار بھی اگر کامیاب ہو جاتے تو وسیع پیمانے پر تباہی پھیل سکتی تھی لیکن ایک دہشت گرد کو سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کر دیا تو باقی دہشت گردوں کو بھی اپنی موت نظر آنے لگی اور کارروائی سے پہلے ہی انہوں نے خود کو اڑا لیا۔

یہ بات تو پوری طرح واضح ہے کہ دہشت گرد ابھی تک اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے اور انہیں عملی جامہ پہنا رہے ہیں تاہم جوابی کارروائیوں کی وجہ سے اب انہیں اہداف تک پہنچنے میں ناکامیوں کا سامنا بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان خود کش بمباروں کے پاس بھی افغان موبائل فونوں کی سمیں تھیں اور وہ افغانستان میں اپنے منصوبہ سازوں کے ساتھ رابطے میں تھے۔ دہشت گردی کے اس پہلو پر زیادہ توجہ دینے اور افغان حکام کے ساتھ یہ معاملہ اْٹھانے کی ضرورت ہے۔

Afghanistan

Afghanistan

ابھی دو روز پہلے امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھارت کے دورے پر تھے اور دہشت گردی کے حوالے سے بھارتی نقطہ نظر کی تائید و توثیق کرتے پائے گئے اس موقع پر وہ بھول گئے کہ پاکستان ابھی تک دہشت گردی کے نرغے میں ہے اور افغانستان میں بیٹھ کر دہشت گرد اس کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے نہ صرف افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے بلکہ ٹیلی فون بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ نے دہشت گردی کے سلسلے میں بھارتی موقف اپنا کر دہشت گردوں کو بھی بالواسطہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت دہشت گردوں نے افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور حالیہ دنوں میں جتنی بھی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ ان سب کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔

ان حالات میں جب امریکی افواج ابھی تک افغانستان میں موجود ہیں یہ سوال بڑا اہم ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور کی افواج کی موجودگی میں دہشت گرد وہاں اپنے ٹھکانے بنانے میں کیسے کامیاب ہو جاتے ہیں؟ بنیادی طور پر تو امریکہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے ہی افغانستان میں آیا تھا۔ پاکستان نے اس جنگ میں امریکہ کا پورا پورا ساتھ دیا، اس کے نتیجے میں دہشت گردی کی بلا پاکستان کے گلے پڑ گئی اور آج تک ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، اس دوران امریکہ نے یوٹرن لے کر بھارت کی سرپرستی شروع کر دی اور اس کے ساتھ باقاعدہ تزویراتی معاہدہ کر لیا اب یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے ساتھ اس میدان میں تعاون کریں گے اور دفاعی تنصیبات سے استفادہ بھی کریں گے۔

India

India

بھارت، پاکستان میں جاسوسی بھی کرا رہا ہے اور بلوچستان اور سندھ میں دہشت گردی میں بھی ملوث ہے اس ماحول میں دہشت گردی کیسے ختم ہو گی؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ امریکہ جو مشن لے کر افغانستان میں آیا تھا وہ تو پورا نہیں ہوا دہشت گردی کا سارا ملبہ اب پاکستان پر منتقل ہو گیا اور بظاہر امریکہ اس تمام سلسلے سے لاتعلق سا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس کی ترجیحات بھی تبدیل ہو گئی ہیں اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ خطے میں بھارت کی بالا دستی کے لئے کوشاں ہے امریکی شہ پا کر بھارت کے رہنما بھی اشتعال انگیزی پر اتر آئے ہیں ایسے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ بظاہر کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہ دہشت گردی تو اس کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے اور اسے بہر حال دہشت گردوں کو ناکام بنانا ہے۔ پاکستان نے دو سال پہلے جو آپریشن ضرب عضب شروع کیا تھا اس کے نتائج مثبت برآمد ہوئے ہیں اور ملک کے اندر سے دہشت گردوں کے ٹھکانے تباہ کر دیئے گئے ہیں تاہم اب وہ افغانستان میں اپنی کمین گاہیں بنا کر بیٹھ گئے ہیں اور وہیں سے کارروائیاں کر رہے ہیں۔ افغان فورسز اگر پاکستان سے تعاون کریں تو یہ سلسلہ بھی بڑی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے اس لئے خود افغانستان کے مفاد میں ہے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ تعاون کرے اور نہ صرف انٹیلی جنس شیرنگ کرے بلکہ دہشت گردوں کے ٹھکانے بھی ختم کرے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سے افغانستان بدستور عدم استحکام کا شکار رہے گا، امریکہ نے تو بہر حال ایک نہ ایک دن اس خطے سے چلے جانا ہے پاکستان اور افغانستان نے یہیں رہنا ہے اس لئے ان دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعاون سے دہشت گردی کے خلاف اقدام ہونے ضروری ہیں۔

 Ishfaq Raja

Ishfaq Raja

تحریر : محمد اشفاق راجا