دہشت گردی کے مقابلے میں مضبوط سیکیورٹی حصار

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

تحریر : سید توقیر زیدی
وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ہم بے گناہ شہریوں کے خون کا حساب رکھ رہے ہیں، اس حساب کی آخری قسط چکانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، دہشت گرد اور اْن کے سرپرست قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکیں گے۔ تیرہ سال تک کسی نے دہشت گردی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں دیکھا، ہم نے پورے سیاسی عزم کے ساتھ آپریشن ضربِ عضب کا فیصلہ کیا ہے، فوج، پولیس اور سیکیورٹی اداروں نے اپنے لہو سے اسے پروان چڑھایا ہے، اِسلام، سلامتی، محبت اور اخوت کا دین ہے جس میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے۔ حکومت کی نرمی کو بے بسی نہ سمجھا جائے، ہم نے صبر سے کام لیا ہے، فرقہ واریت، مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو کٹہرے میں لائیں گے۔

قومی سلامتی کے اداروں کی جدوجہد سے دہشت گردی کی کارروائیاں کم ہوئی ہیں،دہشت گردوں کو دوبارہ سر نہیں اْٹھانے دیں گے، اللہ اور رسولۖ کے نام پر جلاؤ گھیراؤ برداشت نہیں، یہ حکومت اور بیس کروڑ عوام کا عزم ہے، دہشت گرد اِس فصیل میں دراڑ نہیں ڈال سکتے، دہشت گرد جان لیں ناکامی اور نامرادی اْن کا مقدر ہے، مسکراہٹیں واپس لانے تک آرام سے نہیں بیٹھوں گا، وزیراعظم نواز شریف پیر کی شب ریڈیو اور ٹی وی پر قوم سے خطاب کر رہے تھے۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشت گردی کی وارداتوں میں کمی آئی ہے، اب یہ قریب الاختتام ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے ہی سالِ رواں کو دہشت گردی کے خاتمے کا سال قرار دے چکے ہیں، قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے ٹھکانے، کمین گاہیں، تربیت گاہیں اور اسلحے کے ذخائر ختم کر دیئے گئے ہیں۔

اب دہشت گردوں کے پاس کارروائیوں کے اہداف بھی بہت کم ہو گئے ہیں، اِسی لئے اب وہ جو کارروائیاں کر رہے ہیں وہ تعلیمی اداروں اور پبلک مقامات تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں، چونکہ ان کے سہولت کاروں کا دائرہ پورے مْلک میں پھیلا ہوا ہے، اِس لئے وہ کہیں نہ کہیں واردات کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، زیادہ تر کارروائیاں ایسے مقامات پر ہو رہی ہیں، جہاں پہلے ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے، اِسی وجہ سے نہ صرف جانی نقصان زیادہ ہوتا ہے، بلکہ افراتفری اور اضطراب کی لہریں بھی زیادہ پھیلتی ہیں۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران پشاور، کوئٹہ، شب قدر،مردان، چار سدہ وغیرہ میں ایسی ہی وارداتیں ہوئی ہیں۔

Pakistan Terrorism

Pakistan Terrorism

ملک میں دہشت گردی کا جب سے آغاز ہوا ہے اس کے مختلف مراحل کا اگر قریب سے جائزہ لیں تو دہشت گرد مختلف نوعیت کی حکمت عملیوں پر کار فرما نظر آئیں گے، جنہیں وہ حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً تبدیل بھی کرتے رہتے ہیں اب اْن کی کارروائیاں مایوس عناصر کی کارروائیاں معلوم ہوتی ہیں۔ لاہور کی واردات کرنے والے دہشت گرد کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ پہلے اس کا ٹارگٹ ایک گرجا گھر تھا اور وہ یہاں دہشت گردی کرنا چاہتا تھا، لیکن ایسٹر کی وجہ سے گرجا گھر میں حفاظتی انتظامات بڑے سخت تھے اِس لئے دہشت گرد یہاں سے مایوس لوٹ گیا اور اس کے سہولت کار اسے گلشن اقبال کے قریب گاڑی سے اْتار کر چلے گئے، جس کے بعد یہاں دھماکہ ہو گیا۔

اگر ایسا ہی ہوا ہے تو اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں سیکیورٹی ہو گی، دہشت گرد وہاں کا رْخ نہیں کریں گے اور صرف اسی جگہ کامیابی حاصل کر پائیں گے جہاں سیکیورٹی میں کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی رخنہ موجود ہو گا، اِس لئے یہ بہت ضروری ہے کہ تمام پبلک مقامات پر ایک ہی طرح کا فول پروف سیکیورٹی پلان بنا کر نافذ کیا جائے اور ایسی منصوبہ بندی سیکیورٹی کے مسلمہ ماہرین کے مشورے سے تیار کی جائے، دْنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں پبلک مقامات کی سیکیورٹی کے لئے جو انتظامات کئے جاتے ہیں اْن کے مطالعے کی بھی ضرورت ہے۔

اس میں شک نہیں کہ دہشت گرد بعض اوقات سیکیورٹی حکام کو جل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور ایسا انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہو جاتا ہے، لیکن بہرحال جو کچھ بھی انسانی بس میں ہو وہ تو کیا جانا چاہئے۔ یہ بات اب ثابت ہو چکی کہ جو سیکیورٹی حکام غافل رہیں گے ان کی غفلت کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا اور اس کی سزا بے گناہ لوگوں کو بھگتنا پڑے گی، اِس لئے اب پہلی فرصت میں مْلک گیر سطح پر سیکیورٹی کے انتظامات کرنے کو اولیت دی جائے۔وزیراعظم نواز شریف نے یہ بالکل درست کہا ہے کہ شہیدوں کے خون کا حساب رکھا جا رہا ہے اور دہشت گردوں سے انتقام لیا جائے گا، لیکن اب اس ضمن میں کسی کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔

Taliban

Taliban

اس وقت اصل ضرورت اِس بات کی ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں کا سراغ لگانے کے کام کو اولیت دی جائے، خود کش حملہ آور یا دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والے تو محض ملکی یا غیر ملکی دشمنوں کے آلہ کار کا کردار ادا کرتے ہیں، جو لوگ تخریب کاری اور دہشت گردی کے اس سلسلے کو منظم کرتے ہیں اْن کی پناہ گاہوں تک پہنچنے کی ضرورت ہے جس طرح کوئٹہ میں ”را” کا ایجنٹ گرفتار ہوا ہے اگر اس کے نیٹ ورک کا پتہ چلایا جائے، فرقہ وارانہ تنظیموں کے ساتھ اس کے روابط کا صحیح سراغ مل سکے تو اس سے سیکیورٹی اداروں کا کام بہت آسان ہو سکتا ہے۔ اب یہ بات کوئی راز نہیں رہی کہ اِن وارداتوں میں پیسے کا کھیل کس حد تک کھیلا جا رہا ہے۔غیر ملکی تخریب کار مقامی افراد کو پیسوں کا لالچ دے کر آلہ کار بناتے ہیں، جب تک اِس نیٹ ورک کا پوری طرح خاتمہ نہیں ہو گا، تخریب کاری کا یہ سلسلہ نہیں رک سکے گا۔

وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ اللہ اور رسولۖ کے نام پر جلاؤ گھیراؤ برداشت نہیں کیا جائے گا،جس کا ایک مظاہرہ اتوار کو عین اْس وقت اسلام آباد میں ہو رہا تھا جب لاہور میں دہشت گردی کی واردات ہوئی، اسلام آباد میں جمع ہونے والے لوگوں نے جگہ جگہ تشدد کی وارداتیں کیں، میٹرو بس کے سٹیشنوں کو تباہ کیا اور سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچایا، اِن لوگوں کا مقصد و مْدعا کیا تھا؟ سٹیج پر جس طرح کی حرکتیں کی گئیں وہ اسلام کے نام لیوا کسی شخص کو زیب نہیں دیتیں۔

ان حرکات و سکنات اور دریدہ دہنی کی ویڈیوز دیکھ کر سیکیورٹی حکام کو لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے، کیونکہ اگر اس سلسلے کو یونہی بلا روک ٹوک بڑھنے دیا گیا تو اس کے مْلک و قوم، حکومت اور معاشرے کے لئے انتہائی منفی نتائج برآمد ہوں گے، اپنے مطالبات سلیقے اور قرینے سے منوانے کے لئے پْرامن احتجاج کی بجائے شہریوں کو خوفزدہ کرنے کی یہ روش کسی صورت پسندیدہ نہیں ہے اور اس کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے ورنہ معاشرہ شْتر بے مْہار ہو جائے گا۔

Syed Touqeer Hussain

Syed Touqeer Hussain

تحریر : سید توقیر زیدی