یوں امتحان لیا خاکداں بنا کے مجھے

یوں امتحان لیا خاکداں بنا کے مجھے
سمجھ رہا تھا سکوں پائے گا جلا کے مجھے

وہ خوش کہاں ہے بتا خاک میں ملا کے مجھے
خمار دے گیا نظروں سے وہ پلا کے مجھے

نشے میں چور کیا اور گیا بھلا کے مجھے
رلانے والا ہی لگتا ہے تو ہنسا کے مجھے

بنا کے طفل نہ بہلا یہاں لبھا کے مجھے
میری خبر نہیں مجھ کو کئی دنوںسے یہاں

میرا پتہ تو بتا میرے پاس آ کے مجھے
میرے بغیر مکمل نہیں حیات تیری

تیرا وجود مکمل بنے گا پا کے مجھے
ادھر ہے آگ، ادھر بارشیں ہیں پتھر کی

یوں امتحان لیا خاکداں بنا کے مجھے
بلا رہا تھا مہکتا حسیں بہارِ چمن

اْڑاکے لائے ہیں جھونکے یہاں ہوا کے مجھے
بکھر گیا ترا شیرازئہ وفا اب کہ

حوالے دینے لگا تھا کہاں وفا کے مجھے
بڑے سلیقے سے پوشیدہ خانئہ دل میں

وہ اپنے رازکئے رازداں بنا کے مجھے
دیارِ غیر میں تنہائیوں کی شورش میں

خموشیوں کی صدائیں گیا سنا کے مجھے
دھڑکتے دل کی تمنائیں سو گئیں لیکن

تمام عمر نہ سوئوں گیا جگا کے مجھے
کنارے بیٹھ کے طوفاں سے کیابھلا نپٹوں

اتار بحر میں اور دیکھ آزما کے مجھے
جو ہمنوا تھا وہ خوشبو بنے بکھر تو گیا

گلوں کے رنگ میں دیکھو گیا بسا کے مجھے
یہ سارا کھیل تیری حکمتوں کا لگتا ہے

ہر ایک زاویہ تکنا جلا بجھا کے مجھے
جناب آپ انا کے حصار سے نکلو

یقین ہے تو ذرا لے چلو نبھا کے مجھے
کئی دنوں سے شکایت یہ کر رہا تھا وہ

سنبھالنے کا نہ دعویٰ کرو گرا کے مجھے
دیا جلا ہوا رکھتا ہوں بام پر اس کے

مگر وہ دیتا ہے ٹوٹا دیا بجھا کے مجھے
یہاں تو خوف کا منظر ہے خامشی ہر سو

تمہاری یاد کہاں لائی ہے بہا کے مجھے
نہ عیب تھے میرے چہرے پہ نا ہی گرد و غبار

وہ ہنس رہا تھا یوں ہی آئنہ دکھا کے مجھے
پتہ چلے گا میرا ظرف کیا ہے دنیا کو

جناب آج مخالف کرو ہوا کے مجھے

چراغِ علم ہوں روشن کرو جناب نثار
شرارہ جان کے جانا نہیں بجھا کے مجھے

Ahmed Nisar

Ahmed Nisar

تحریر : احمد نثار
ahmadnisarsayeedi@yahoo.co.in