تھل کا سفر۔۔۔۔1

Government Postgraduate College

Government Postgraduate College

تحریر : رانا عبدالرب
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کی عمر جتنی لمبی ہے لگ بھگ اتنی اسی کالج سے چھپنے والے میگزین ”تھل ”کی ہے۔ ”تھل ”میگزین لگ بھگ 47 سال سے کبھی باقاعدہ اور کبھی بے قاعدہ اشاعت کے مراحل طے کر رہا ہے اور حال ہی میں دو میگزین ”تھل ”تخلیقی ورثہ نمبربرائے سال ٢٠١٤اور”تھل” تنقیدی و تحقیقی نمبر برائے سال ٢٠١٥شائع ہو چکے ہیں۔یہ دونوں شمارے لیہ میں ادب کے عظیم مربی ڈاکٹر افتخار بیگ کی ادارت میں اشاعت پذیر ہوئے ہیں۔

تھل تخلیقی ورثہ نمبرکی مجلسِ مشاورت وادارت میں اکٹر ملک محمد امیر،ڈاکٹر انور نذیر علوی،ڈاکٹر حمید الفت ملغانی،پروفیسر ریاض راہی،پروفیسر غلام یحییٰ شفقت بزدار،سبحان سہیل خان(لیکچرار) اور صغیرعباس(لیکچرار )شامل ہیں،جبکہ مدیرانِ متعلم میں عشتار کرن(ایم۔اے۔اردو)، اقرا ء اقبال(ایم۔ اے۔ اردو)، رانا عبدالرب(ایم۔ اے۔ اردو)،شمس وہاب(سال اول، میڈیکل گروپ) شامل ہیں۔جبکہ”تھل ،تنقیدی و تحقیقی نمبر”٢٠١٥کی مجلس مشاورت میں ڈاکٹر ملک محمد امیر،ڈاکٹر انور نذیر علوی،ڈاکٹر حمید الفت ملغانی،پروفیسر ریاض راہی،سبحان سہیل خان(لیکچرار) اور صغیرعباس(لیکچرار )شامل ہیں، جبکہ مدیران متعلم میں گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ شعبہ اردو کے ہونہار طلبا جن مین عمارہ غفار(ایم ۔اے اردو)اقراء اسلام(ایم۔اے اردو)راحت رشید(ایم۔اے اردو)فیض الحسن(ایم۔اے اردو)شامل ہیں۔

پہلے جائزہ لیتے ہیں ”تھل” تنقیدی و تحقیقی نمبر کا۔۔۔۔128صفحات پر مشتمل ”تھل” تنقیدی و تحقیقی نمبرمیںسربراہ ادارہ کے پیغام اور مدیر کے اداریہ کے علاوہ 17مضامین میں نامور ادبی شخصیات اورادب کے اہم موضوعات زیر بحث لائے گئے ہیں۔”تھل میگزین میں نامور قلم کاروں نے صفحہ قرطاس پر موتی بکھیرے ہیں جن میں ڈاکٹر افتخار بیگ،پروفیسر مہر اختر وہاب،ریاض راہی،صغیر عباس جسکانی،ڈاکٹرحمید الفت ملغانی،رانا غلام یٰسین،محمد سبحان سہیل،اعجاز حسین،محمد افضل صفی،پروفیسر مختیار حسین بلوچ،نسرین کوثر،عدیلہ یوسفی،سبحان سہیل خان،شاہد بخاری اور محمد فاروق شامل ہیں۔

Literature

Literature

”تنقیدی و تحقیقی نمبر” میں ڈاکٹر حمید الفت ملغانی نے اپنے مضمون”کبھی تم سوچنامیں کربِ فرقت کی حقیقت ” میں تخلیق افتخار پر گفتگو فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ”ایک نظم جس کا عنوان” خوشی” ہے لیکن اس میں بھی کرب ِ فرقت کی روح کچھ یوں حلول کر گئی ہے۔

غم ِ فرقت میں میری آنکھ سے موتی برسے
میں بہت خوش ہوں مجھے آج تیری یاد آئی

نسرین حمید کے لکھے گئے مضمون افتخار بیگ کی شاعری۔ ایک مطالعہ”میں افتخار افکار کو موضوع بناتے ہوئے فرماتی ہیں کہ ڈاکٹر افتخار بیگ استحصال زدہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہیں ، ان کے ہاں خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ ان کا حل بھی موجود ہے ۔شعر دیکھیں:

ہم نے برسوں تلک نفرتیں بوئی تھیں
وقت کا جبر پھر ناگہانی ہے کیا؟

سبحان سہیل خان نے افتخارِ زیست کے پنوں میں سے موتی نکالے ہیں ،وہ فرماتے ہیں کہ:”ڈاکٹر افتخار بیگ سمجھتے ہیں کہ ظالم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بذات خود ایک جرم ہے کیوں کہ اس لایعنی خاموشی سے ظالم کے حوصلوں میں اضافہ ہوتا ہے ۔اس لئے وہ احتجاج کو اپنا حق بھی سمجھتے ہیں اور فرض بھی۔

کیوں شہر میں خوشیاں ہوئیں کم،بات کرو جی
ہر سمت ہیں کیوں دردو الم بات کرو جی

”تھل ”میگزین کی انفرادیت و اہمیت اس بات سے لگائی جا سکتی ہے کہ محسن نقوی نے امام خمینی کے چند ایک اشعار کا منظوم ترجمہ تو ضرور کیا لیکن امام خمینی کو بطور شاعر ”تھل”میگزین میں چھپنے والے پروفیسر صغیر عباس جسکانی کے مضمون میںامام خمینی کی شاعری پر جس انداز سے گفتگو کی ہے وہ لائق تحسین ہے ۔ اسی طرح صغیرعباس جسکانی صاحب نے فکرِ خیال سے وابستہ منفرد لہجے کے شاعر ”ریاض راہی”پر فارسی میں جو مضمون لکھا ہے وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

مذکورہ میگزین میں ڈاکٹر افتخار بیگ صاحب اپنے مضمون”پروفیسر مہر اختر وہاب کی تحقیقی کاوش : ایک جائزہ”میں مہر اختر وہاب صاحب کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”مہر اختر وہاب کا خیال ہے کہ اسلامی ادب کی تحریک کے نزدیک ہر بے مقصد تخلیق لایعنی اور لغو ہے،ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلامی ادب کی تحریک کا مقصدایک ایسی سلطنت کا حصول و قیام ہے ”جس میں خالق کائنات کے احکامات جاری ہوں اور خدا پرستی کی بنیاد پر ایک صالح معاشرے کا قیام عمل میں لایا جائے۔

مہر اختر وہاب صاحب کا تحریر کردہ مضمون”اسلامی ادب کی تحریک کا ردعمل”اسلامی تحریکوں پر بحث کرتے ہوئے اعتراضات اور حق میں دلائل پر مفصل گفتگو کرتے ہوئے مکالمے کی سی صورت پیدا کرتے ہوئے مضمون کو چند ایک حصوں میں تقسیم کرتے ہیں جس کے مطابق ،اسلامی ادب کی تحریک پر عسکری کے اعتراضات،نعیم صدیقی کے دفاعی دلائل ،فراق گورکھ پوری کے اعتراضات،فراق کے مؤقف کا استرداد، حامیان فراق،اسلامی ادب کا دفاع۔جواب الجواب،اعتدال پسندنقادوں کا نقطہ نظر شامل ہیں۔ ریاض راہی صاحب نے گوشہ غالب میں سے ”مرزا غالب کی المیہ شاعری”کا انتخاب کیا۔جبکہ محمد سبحان سہیل نے ”تحقیق و تنقید کا تعلق”پرقلم فرسائی فرمائی ۔اسی طرح اعجاز حسین نے ”ظفر اقبال کی غزل ”پر اور محمد افضل صفی نے ”رومن رسم الخط اور اردو”عدیلہ یوسفی نے ”فرحت اللہ بیگ کی خاکہ نگاری” شاہد بخاری نے ”دنیا کی آسان ترین زبان اسپرانتو” اور محمد فاروق نے سرائیکی زبان کی پہچان ”شفقت بزدار دے کلام اچ ثقافتی شعور دا حوالہ ہک جہات”جبکہ رانا غلام یٰسین نے ”خیر الاذکار کی تدوین۔ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کا ایک علمی و ادبی کارنامہ ” پرمضامین لکھے ہیں۔ یہ شمارہ یقینا علم و ادب کی دنیا میں ایک اضافہ ہے۔ اور لیہ کے علمی حلقوں میںزیرِبحث رہے گا۔ تھل تخلیقی ورثہ نمبر پر تبصرہ آئندہ ادبی صفحے پر۔

Rana Abdulrab

Rana Abdulrab

تحریر : رانا عبدالرب