تھیلیسیمیا

Thalassemia

Thalassemia

تحریر : شاہد شکیل
یہ بیماری ،خون کی کمی ،جسم میں پروٹین کی خرابی اور آکسیجن کی نقل و حمل میں مداخلت کے باعث پیدا ہوتی ہے،ماضی میں تھیلیسیمیا ہلکے فارم اور صحت کی بقاء کیلئے خون میں پیتھو جینز کی رفتار سست ہونے پر ملیریا کے خلاف حفاظت کرتی تھی اس بیماری میں زیادہ تر جنوب مشرقی ایشیا اور بحیرہ روم کے چند ممالک کے باشندے مبتلا تھے ،تھیلیسیمیا یونانی نام ہے اور کئی ممالک میں انیمیا بھی کہا جاتا ہے جن ممالک میں ملیریا جیسی وباء ہو وہاں عام طور پر اس بیماری کے پھیلنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے،آج یہ بیماری دنیا بھر میں پائی جاتی ہے اور ہزاروں افراد خاص طور پر بچے اس بیماری میں مبتلا ہیں تھیلیسیمیاکے اسباب۔سانس لینے سے پھیپھڑوں میں تازہ ہواشامل ہوتی ہے

لیکن اس بیماری میں مبتلا افراد کو مکمل آکسیجن نہ ملنے اور جسم میں نقل و حرکت نہ کرنے سے فائدہ نہیں پہنچتا اس عمل کو طبی زبان میں ایری تھرو سیٹین کہا جاتا ہے،آکسیجن شریانوں میں سرایت کرنے کے بعد سرکولیشن کرتی ہے جس سے انسانی اعضاء مکمل اور درست طریقے سے فنکشن کرتے ہیں۔ تھیلیسیمیا میں جزوی طور پر جینیاتی تبدیلی پیدا ہونے سے پروٹین ہیمو گلوبن کی ناقص طریقے سے تشکیل ہوتی اور کم فعال ثابت ہوتی ہے

یعنی آکسیجن کی جسم میں منتقلی کے وقت ہیمو گلوبن میں جمع ہونے سے خون میں سرخ خلیات کی صورت اختیار کرتے ہیں جس کے سبب طبی و جسمانی تیکنیکی لحاظ سے مختلف اشکال اور شدت کی ڈگریوں میں پائے جانے کی صورت میں اور خون کی کمی کے باعث انیمیا یعنی تھیلیسیمیا کی بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، تھیلیسیمیا میں مبتلا مریض اس بیماری کی شدت ہیمو گلوبن کے بلاک کو پروڈیوس کرتا ہے یا فنکشنل ورژن میں فعال رہتا ہے۔

Hemo and Globin

Hemo and Globin

ہیمو گلوبن کی کئی اقسام ہیں اور ان کے تبدیل ہونے کی صورت میں دو قسم کی تھیلیسیمیا کی کیٹاگری میں پائی جاتی ہیں نمبر ایک۔الفا۔ نمبر دو ۔ بیٹا۔الفا کیٹاگری ایشیائی ممالک میں زیادہ عام ہے اور بیٹا کیٹاگری مغربی ممالک میں۔ اس بیماری کی دونوں کیٹاگریز انسان کی زندگی کی پہلے سال سے ہی شروع ہوتی ہیں متاثرہ بچوں کی جلد پیلی ہوتی ہے انیمیا میں مبتلا بچوں کو چکر آنے اور سر درد کی شکایت رہتی اور سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے تھکاوٹ کے علاوہ عدم توجہ ،دل کا تیزی سے دھڑکنا ، جسم میں آکسیجن کی کمی ، خون کی سرکولیشن میں سست روی ، ہڈیوں کے گودے میں کمی کی وجہ سے ہڈیوں کا کم مستحکم ہونا اس بیماری کی علامات ہیں۔عام طور پر تھیلیسمیا میجر واضح طور پر چوتھے یا پانچویں مہینے میں اپنا اثر دکھانا شروع کرتی ہے ایسی صورت حال میں والدین کو چاہئے فوری ماہر ڈاکٹر سے رجوع کریں

ڈاکٹر دورانِ تشخیص خاندانی بیماریوں کے بارے میں بھی سوال کرتے ہیں اور بلا خوف و خطر ڈاکٹر کو آگاہ کر دینا ہی بچے کی صحت کی ضمانت ہے تاکہ وہ شکوک و شبہات سے مثتثنیٰ ہوکر بچے کا معائنہ کرے اور علاج کرنے میں آسانی ہو۔اس بیماری میں مبتلا افراد کو خون کی منتقلی کی ضرورت پیش آتی ہے معالجین اکثر ادویہ اور تھیراپی سے بیماری پر قابو پالیتے ہیں،بیٹا تھیلیسمیا پر قابو پانے اور علاج کیلئے عموماً بون میرو ٹرانسپلانٹ یعنی ہڈیوں کے گودے کی منتقلی اہم قرار دی جاتی ہے لیکن یہ علاج رسک سے بھرپور ہوتا ہے،اس علاج سے ہڈیوں کے گودے کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور مدافعتی نظام مفلوج ہونے کا شدید خطرہ رہتا ہے،

الفا تھیلیسمیا میں مبتلا افراد خون کی منتقلی سے صحت یاب ہو جاتے ہیں،کیونکہ انہیں بہت کم مقدار میں دوسرا خون منتقل کیا جاتااور ہڈیوں کے گودے کی منتقلی سے اجتناب برتا جاتا ہے،جو افراد معمولی الفا اور بیٹا تھیلیسمیا یعنی تھیلیسمیا مائنر اور تھیلیسمیا انٹر میڈیا میں مبتلا ہوتے ہیں انہیں کسی (غیر)(دوسرے انسان کا خون اور ہڈیوں کا گودہ ) کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ ڈاکٹرز انہیں مخصوص ایسڈ اور وٹا مِن بی ١٢ کے استعمال کا نسخہ دیتے ہیں جس سے مریض صحت یاب ہو جاتا ہے۔

Shahid Sakil

Shahid Sakil

تحریر : شاہد شکیل
visit official site:
http://www.aghaz.eu/