کہ ہم نے ذوقِ گل بوسی میں کانٹوں پر زباں رکھ دی

kashmir

kashmir

تحریر: عاقب شفیق
انگلستان کی رنگینیوں میں بے رنگ احساسات لیئے وہ گزشتہ دو دہائیوں سے کشمیر کی خوبصورت وادیوں کی یاد میں سِسک رہا تھا. انہیں وادیوں سے اسکے گھر کی رونقیں، بہن بھائیوں کا پیار ، ماں کی ممتا اور باپ کاشفیق لہجہ وابستہ تھا. پچیس برس سے وہ خود کو کوس رہا تھا کہ اس نے گھر چھوڑنے کا کرخت قدم کیوں اُٹھایا؟ جن پگڈنڈیوں پر پھسلتے سنبھلتے ماں کی اُنگلی پکڑ کر چلنا سیکھا ، ان راستوں کو الوداع کیوں کیا؟ جن حسیں نظاروں نے بچپن سے ہی فطرت کے حسین جلوے دکھائے انہیں کیوں ترک کیا؟ اسے یہ احساس کھائے جا رہا تھا کہ وہ ذی شعور ہو کر بھی انگلستان میں وکالت کر رہا ہے جب کہ اسکی مادری مٹی کو اسکی اشد ضرورت ہے۔ وہ عموماً لندن کی گلیوں میں ٹہلتے وقت کشمیر کے دریاؤں سے متصلہ کھیت۔۔ کھیتوں سے گُزرتی سڑک۔۔۔ سڑک پر چلتے سکول کے بچے۔۔۔۔ بچوں کے پاس سے گُزرتے مال مویشی۔۔۔۔ مویشیوں کے ساتھ باحیا دوشیزائیں سر پر گاگریں دھرے چلتیں دکھائی دیتیں تو وہ چلتے چلتے رک جاتا ۔۔

اس کے قدموں کے رکتے ہی خیال خواب بن کر اُڑ جاتے۔ وہ گھنٹوں تک اسے دوبارہ ذھن میں لانے کو انکھیں موندتا مگر خواب تو کمان سے نکلا تیر…… ایک روز وہ کورٹ جانے کے بجائے لندن کے مقامی دریا کے پُل پر بیٹھا وادیءنظیر کی یادوں میں مست تھا کہ کندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا ” ارشاد ! آج کورٹ کیوں نہیں گئے؟“ ” بس یار ، تنگ آ گیا ہوں ، اب واپس جانا چاہتا ہوں“ ”یار اب تو تم شہر بھر میں شہرت حاصل کر چکے ہو۔ لوگ تمہارے جیسے وکیل ہائیر کرنے کیلئے لمبی قطاروں میں لگے ہوتے ہیں۔ اور تم واپس جانے کی بات کر رہے ہو؟ حیرت ہے“ ”بہت ہو گیا، پچیس برس ہو چلے ہیں مجھے ماں کے ہاتھ کی چوری کھائے، وہ نمکین چائے وہ جیسے چھوٹی بہن کے علاوہ دنیا میں کوئی بنا ہی نہیں سکتااور……اور وہ……“ یہ کہتے ہیں ارشاد کی آنکھیں چھلک پڑیں۔

” یار ! تو بھی ناں……دکھوں سے لبریز جگر کوئی تیرا دیکھے۔۔۔“ وہ ارشاد کے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔ ” مجھے اچھی طرح یاد ہے زیتون خالہ…… انکا منجھلا بیٹا تقسیم میں آزاد کشمیر میں چلا گیا تھااور وہ خود دو بیٹیوں اور تین بیٹوں سے ساتھ کپواڑہ میں ہی رہنے لگیں. ایک روز بھارتی فوجی کپواڑہ میں آئے اور امن کے قیام کے نام پر تمام گھروں سے انکے لختِ جگر لے گئے…… زیتون خالہ چلاتی رہیں، انکے بیٹے تڑپتے رہے …… ان کے گھر سے زبردستی انکی دو بیٹیوں کو بھارتی فوجی ہمراہ لے گئے…… وہ مسلح تھے…… تعداد میں زیادہ تھے…… بھائی بہنوں کی حالت نہ دیکھ سکا اور جذبہِ شہادت سے سرشار ہو کر ببّر شیر کی طرح لپکا اور ان فوجیوں کے غلیظ ہاتھوں سے معصوم بہنوں کو چھڑا لیا۔ قریب ہی موجود دوسرے مسلّح فوجی نے اسکا سینہ چھلنی کر دیا۔

Tear Women

Tear Women

انہیں دوبارہ اپنے ہمراہ جیپ میں ڈال کر لے گئے۔ زیتون خالہ پھوٹ پھوٹ روئیں…… بعد ازیں انہوں نے صبر و تحمل کی وہ تاریخ رقم کی کہ کپواڑہ کے ہر گھر میں انکی داستانِ الم کا ذکر چھڑتا تو ہر کوئی آنسو بہاتا …… اگلے روز ایک چوک میں ان معصوم ننھی پریوں کی سرعام عصمت دری کر کے ماں کے جگر پر بے دردانہ وار کیئے…… دو بیٹیوں کی زندہ لاشیں اور ایک بیٹے کہ میت اُٹھنے پر بھی اب زیتون خالہ کے منہ سے آہ تک نہیں نکلی، جسکی نظر زیتون خالہ پر پڑتی تو وہ انکا گہرے سمندر کی طرح مطمئن چہرہ دیکھ کر چلا چلا کر روتا. انکی ٹھنڈی آنکھوں سے کوئی آنسو نہ بہتادیکھ کر سب کی آنکھیں نم تھیں۔ خدایا! کیسا قہر ہے؟ کیا غضب ہے؟ کیسا امتحان ہے؟ زیتون خالہ لوگوں کے ہجوم میں اپنے گھر میں قدم رکھتے ہی نگاہیں اُٹھا کر عرش کو دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ گھر کی چوکھٹ سے گھسیٹ کر پاؤں اندر رکھا۔ بائیں جانب نظر دوڑائی تو چھوٹی معصوم پری عزت لٹنے پر بلک رہی تھی……سسک رہی تھی…… قیامت کے وقوع کی دعائیں مانگ رہی تھی……۔

انکے قدم رکے …… بیٹی کی تڑپ دیکھ کر آنکھ سے صرف ایک آنسو گال رواں ہوا. ہجوم چیخیں مار مار کر رونے لگا…… ماں نے پھر نگاہ اُٹھا کر عرش والے کو دیکھا…… تین قدم آگے بڑھے تھے کہ سامنے بائیں جانب چولہے کے سامنے دوسری بیٹی عصمت دری کا دھبہ چھپانے کے لیئے منہ زمین پر رگڑ رہی تھی…… وہ چلا رہی تھی…… تلملا رہی تھی… وہ چاہ رہی تھی کہ ابھی زمین پھٹے اور وہ اس میں دھنس جائے…… اس کے پاؤں برتنوں کو ایسے پھینک رہے تھے جیسے بھونچال آ گیا ہو…… وہ اپنے ہونٹو ں کو کاٹ رہی تھی…… زبان چبا رہی تھی…… بال نوچ رہی تھی…… مر جانا چاہ رہی تھی……ہاں…… مر جانا چاہ رہی تھی…… زیتون خالہ کی آنکھ سے ایک اور آنسو چھلک گیا……… ہجوم میں موجود تمام مائیں سوچ رہی تھیں کہ کیا کلیجہ پایا ہے اس ماں نے…… وہ قدم اُٹھا کر آگے بڑھیں۔۔ پھر سے آسمان کی جانب دیکھا اور دیوار کا سہارا لیتے ہوئے آگے بڑھیں…… ۔

بالکل دھیرے دھیرے قدم بڑھا کر وہ سامنے پڑی چارپائی تک پہنچنا چاہ رہی تھیں۔ ہمت کر کے وہ صرف دو ہی قدم مزید اُٹھا پائی تھیں کہ سفید لباس میں ملبوس ننھے شہزادے کو نہ دیکھ پائیں اورگھٹنوں کے بل گر پڑیں۔ کیا مجال کہ ایک آنسو بھی اور نکلا ہو۔ ہاتھوں کے سہارے سے دوبارہ اُٹھیں اور شہید کے سرہانے بیٹھ گئیں۔ نوحہ کناں چلا رہے تھے۔۔ یہ مناظر انہیں چیخنے پر مجبور کر رہے تھے۔۔ وہاں موجود ایک ایک شخص آپے سے باہر تھا۔ مگر زیتون خالہ کے صبرکے کیا کہنے کہ ایک آنسو بھی مزید نہ گرا۔۔ پھر آسمان کی سمت نظر اُٹھا ئی ” یہ سب تیرے ہی ہیں۔ تیرے ہی امتحان میں گھرے ہوئے ہیں۔ سب کو امتحان میں کامیاب کر نا میرے مالک۔۔۔۔۔“

Neelum River

Neelum River

اس واقعہ کو دو ماہ سات دن ہوئے تھے کہ” کیرن“ کے مقام پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا. یہاں مقبوضہ و آزاد کشمیر کے مابین فقط دریائے نیلم حائل ہے۔ لوگ کپڑے میں چھوٹا پتھر اور خط باندھ کر دریا کے پار اپنے پیاروں کے پاس پھینکتے ہیں…. زیتون خالہ بھی کیرن آئیں۔۔ منجھلے بیٹے سے خطوط کا تبادلہ ہوا …بیٹے سے برداشت نہ ہو پایا اور وہ دریا پار کر کے ماں کے قدموں میں جا گرا…. ابھی صحیح طرح سے ملا بھی نہیں تھا کہ بھارتی فوج کی گولیاں اس کے سینے سے آر پار ہو گئیں… زیتون خالہ گھٹنوں کے بل گر گئیں …. ایک اور آنسو کا قطرہ ان کے گال پر آن ٹپکا۔۔۔۔۔“ ارشاد یہ سُنا کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔۔۔
” تم کشمیر سے انگلستان کیوں آئے؟“۔

”میں وہاں مجاہدین کی صفوں میں پیش پیش تھا۔میرے بارے میں بھارتیوں کو اچھی طرح پتا تھا…. میں اس وقت یہاں نہ آتا تو میرے گھر والوں کو وہ کربناک سزاؤں سے موت کے گھاٹ اُتارتے۔ خیر اب میں نہیں رہ پاؤں گا۔۔ میں اب ہر صورت میں واپس جانا چاہتا ہوں۔۔ ماں کی یاد مجھے بہت تڑپا رہی ہے“ ” تم سوچو تمہاری یاد میں ماں کی کیا حالت ہو گی؟؟“ ایک ہفتے کے اندر ہی ارشاد نے اپنا واپسی کا ٹکٹ کروا لیا. اور چند روز میں وہ پھر کشمیر میں قدم رکھ چکا تھا۔۔کپواڑہ میں دخول پر سجدہ کیا اور بھاگتاہوا اپنے گھر کی جانب بڑھا. کپواڑہ کا نقشہ بدل چکا تھا۔ نہ وہ گھر نہ وہ کھیت نہ وہ پگڈنڈیاں نہ وہ سکول نہ وہ مسجد اور نہ ہی وہ چشمے۔۔ اندازتاً اپنے گھرپہنچا ۔۔ گھر کو دیکھااور دیکھتا ہی رہا۔۔ بالکل ویسے کا ویسا ہی تھا گھر۔۔ پچیس برس کے بعد بھی۔۔ ارشاد دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ ماں باہر نہ آ جائے کہیں۔۔ میں خود کمرے میں جا کر ماں کے قدموں سے لپٹ جاؤں ۔۔ ماں کی خوشی دیدنی ہو گی۔۔ یا اللہ! کوئی بہن باہر آ کر مجھے نہ دیکھ لے ۔۔۔ میں خود اندر جا کر انہیں سرپرائز دوں۔۔۔

Mother and Son

Mother and Son

دھیمے قدموں سے…. قدموں کی آہٹ پیدا کیئے بغیر دھیرے دھیرے دیوار کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ پنجوں پہ چلتے ہوئے زور سے دروازہ کھولا اور زور سے بولا۔۔۔ ماں ۔۔ او ماں؟؟ تیرا بیٹا واپس آ گیا ۔۔۔۔ ارشاد ماں کے پاس واپس آ گیا۔۔۔۔ امی؟ کہاں ہیں امی جان؟؟ کمرہ خالی تھا۔۔۔ بھاگتا ہوا دوسرے کمرے میں گیا ۔۔تیسرے کمرے میں۔۔۔ گُڑیا؟؟ امی؟؟ بھیا؟؟ کوئی ہے؟ شور سن کر پڑوس کے بچوں نے کہا” یہ گھر تو کئی سالوں سے خالی ہے۔۔یہاں کوئی نہیں رہتا۔۔۔ اس گھر میں رہنے والے سارے کب کے جا چکے ہیں“ ارشاد کے ذھن میں سو سو سوالات ایک سیکنڈ میں آتے جاتے رہے ۔ وہ گھٹنوں کے بل گر گیا۔۔ اور نگاہیں آسماں کی جانب اُٹھ گئیں۔ دو برس سے ارشاد اسی اپنے پرانے مکان میں رہ رہا ہے لیکن کسی کا کچھ پتا نہ چل سکا کہ کون کہاں گیا؟

تحریر: عاقب شفیق