شکوہ نہ کرے

Majestic

Majestic

وہ ہم سے فضول کی باتوں پہ بس لڑا نہ کرے
ہزار زہر ہو دل میں ، بیزار ہوا نہ کر ے
کہاں کی جیت ؟ قصہ ّ ہے فقظ ذاتوں کا
شکست یار کو، لفظوں میں بھی بیاں نہ کرے
میں اُس کی یاد کی یادوں سے ہمکلام رہوں
گھری ہوں بھیڑ میں بھی تو،مجھے تنہا نہ کرے
ایک عالم کو تم نے دیوانہ بنا رکھا ہے
بار بار یہ شکوہ ہم سے کیا نہ کرے
میرے خیال پہ تسلط ہے اک زمانے کا
وفائے زیست کو بے وفا کہا نہ کرے
زندگی باندھ رکھی ہے بس ایک وعدہ فردا سے
یہ اور بات کہ زندگی و فانہ کر ے

Majestic

Majestic

تحریر: مسز جمشید خاکوانی