ہم وہ نہیں جن کو زمانہ بنا گیا

Helen Keller

Helen Keller

تحریر : شاہ فیصل نعیم
٢٧ جون ١٨٨٠ء کو اس کا جنم ہوا ، ٦ ماہ کی عمر میں بولنا اور ایک سال کی عمر میں اس نے چلنا سیکھ لیا تھا۔ اس کی اتنی جلدی سیکھنے کی رفتار کو دیکھتے ہوئے کسی کے لیے اندازہ لگانا مشکل نا تھا کہ یہ ایک غیر معمولی بچی ہے۔ پھر تیزی سے قدم بڑھاتی ہوئی اس بچی کو ایک دن Brain Feverنے آلیا گھر والوں نے بہت جگہوں سے علاج کروایا، جہاں کسی نے کہاں وہاں لے گئے کہ شاید علاج کی کوئی سبیل نکل آئے اور ان کی بچی پھر سے سننے اور دیکھنے لگے مگر سب کوششیں بیکار گئیں اور وہ ١٨ ماہ کی عمر میں مکمل طور پر Deaf Blind ہو گئی مگر اس بچی نے حوصلہ نہیں ہارا اس نے چیزوں کو محسوس کرکے سیکھنا شروع کر دیا۔ اُس نے جو پہلا لفظ سیکھا وہ Doll تھا جو اسے ایک گفٹ کے طور پر دی گئی تھی۔ اس کے بعدسیکھنے کے سلسلہ چل نکلا۔ اسے سیکھنے کا شوق اس قدر آگے لے آیا کہ وہ ١٩٠٤ء میں٢٤ سال کی عمر میں بیچلر ڈگری اِن آرٹس حاصل کرنے والی دنیا کی پہلی خاتون بن گئی ۔ اس نے کچھ رہنمائی کرنے والوں کی مدد سے اپنی پہلی کتاب The Story of My Life لکھی ڈالی۔ جسے دنیا بھر سے بہت زیادہ داد ملی اور وہ دنیا میںایکMotivational Force کے طور پر جانی جانے لگی اُسے دنیا بھر سے پیغام موصول ہونے لگے۔

اُس نے اپنی کہانی دنیا سے شیئر کرنے کے لیے بہت سے ممالک کے دورے کیے۔ لوگو! یہ اُس کے سفر کی انتہا نہیں ہے ابھی ابتدا ہے ۔ وہ آگے بڑھتی گئی ١٩٢٠ ء میں اُس نے American Civil Liberties Union (ACLU) کی بنیاد رکھی۔ وہ سوشلسٹ پارٹی کی ایک سرگرم رکن رہی اُس نے سوشلزم پر بہت سے مضامین لکھے جو Out of the Dark کے نام سے شائع ہوتے رہے۔ دنیا اُسے ایک ادیبہ اور فلاحی ورکر کے طور پر جاننے لگی ۔ اُس پر دنیا نے اعزات کی برسات کردی١٩٣٦ء میںTheodore Roosevelt Distinguished Service Medal، ١٩٥٧ء میں The Miracle Worker ، ١٩٦٤ء میں Presidential Medal of Freedom ، ١٩٦٥ء میں Election to Women’s Hall of Fame اور اس جیسے بہت سے اعزات سے نوازا گیا۔ دنیا کی بہت سی یونیورسٹیوں نے اُنہیں ڈاکٹریٹ کی اعزای ڈگریاں پیش کرنا اپنے لیے فخر جانا۔ پھر دنیا کی سب سے بڑی حقیقت نے اُسے آلیا اور وہ یکم جون ١٩٦٨ء کو رات کو سوتے ہوئے دنیا پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑتے ہوئے ابدی نیند سو گئی۔ Hellen Keller کہتی تھی :”دیکھنے والے کچھ نہیں دیکھتے”۔

اُس کے یہ الفاظ:”میں درخت کے تنے پر ہاتھ رکھ کر بتا سکتی ہوں کہ اس پر کتنے پرندے بیٹھے ہیں اور یہ بھی کہ وہ نر ہیں یا مادہ”۔ابھی زمانے کو یاد ہیں۔ڈاکٹرز کی طر ف سے جاری کردہ رپورٹس نے اُ س کی ماں کو بتا یا تھا :”آپ کا بچہ بالکل نارمل ہے”۔ مگر ٤ دسمبر ١٩٨٢ء کو ہسپتال میں کہرام مچ گیا ۔ ہسپتال کا سارا عملہ پریشان تھا۔ جب اُس کے باپ کو بتایا گیا تو وہ ہسپتال چھوڑ کر باہر چلا گیا اُس کی ماں یہ جاننے کے لیے بے تاب تھی کہ اُس کا بچہ کیسا ہے مگر ہسپتال کا عملہ اُسے بتا نہیں رہا تھا۔ مگر ماں کے اسرار پر جب ڈاکٹروں نے بتایا:”آپ نے ایک ایسے بچے کو جنم دیا ہے جس کے نا بازو ہیں نا ٹانگیں”۔ یہ خبر سنتے ہی وہ کپڑے میں منہ چھپا کر رونے لگی۔ اُس کے ماں باپ نے اُسے بہت زیادہ پیار دیا ، اتنا پیار کے اُسے کسی چیز کی کمی محسوس نا ہو مگر پھر بھی اُسے اپنی محرومیوں کا اندازہ تھا وہ سکول میں دوسرے بچوں کی طرح بھاگ نہیں سکتا تھا وہ اُن کے ساتھ کھیل نہیں سکتا تھا۔ وہ اکثر سوچا کرتا تھا : “خدا نے مجھے ایسا کیوں پیدا کیا “؟

ALLAH

ALLAH

“شاید میرے ماں باپ نے کوئی گنا ہ کیا ہو۔۔۔لیکن ساتھ ہی وہ یہ سوچنے لگتا کہ اُن کے گناہکی سزا خدا نے مجھے کیوں دی”؟”وہ اکثر سوتے وقت سوچتا کہ صبح جب میں اُٹھوں گا تو اللہ تعالیٰ مجھے ہاتھ اور ٹانگیں عطا کر دے گا”۔ مگر کبھی ایسا ہوتا نہیں تھا۔ پھر اُس کی زندگی میں تبدیلی آنے لگی وہ سوچنے لگا:”خدا نے کوئی چیز بیکار پیدا نہیں کی ۔۔۔۔کوئی نا کوئی ایسا کام ضرور ہے جو ہاتھ پائوں رکھنے والے نہیںکر پا رہے جس کے لیے خدا نے مجھے پیدا کیاہے۔ بس مجھے اپنی پیدائش کے مقصد کو جانناہے”۔وہ ایک دن کیچن میں اونچی جگہ پر بیٹھا اپنی ماں کو کھانا بناتے ہوئے دیکھ رہا تھا جب اُس کے ذہن میں خیال ہے:
“اگر میں یہاں سے پورے ضرور کے ساتھ نیچے گروں اور زمین سے ٹکرائوں تو میں مر جائوں گا”؟وہ اپنی زندگی ختم کرنے کا سوچ رہاتھا جب ایک اور خیا ل نے اُس کے ذہن میں جگہبنائی:”اگر میں نا مرا تو مجھے اپنے ماں باپ کو بتانا پڑے گا کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟وہ جو مجھے اتنے پیارسے میری دیکھ بھال کر رہے ہیں میں اُن کے سامنے کیا جواب دوں گا”؟

ایسے ہی وقت گزرتا گیا اور اُس نے ٢١ سال کی عمر میں Griffith University سے گریجوایشن کر لی ۔ اب اُس نے عملی زندگی میں اُتر نا تھا ۔ بہت سوچ بچار کرنے کے بعد اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک Motivational Speaker بنے گا اور دنیا کو Inspire کرے گا۔ اپنے زمانہ ِ طالب علمی میں وہ بہت سے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا۔ اُس کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے ١٩٩٠ء میں اُسے Australian Young Citizen Award سے نوازا گیا۔ اُس کی رفتار زمانے کی رفتار سے کہیں تیز تھی وہ آگے بڑھتا گیا۔ دنیا کے دکھ کے مارے انسانوں کو اپنی کہانی سنا سنا کر جینے کی اُمید دیتا گیا۔ دنیا نے اُسے ہاتھوں میں اُٹھا لیا ۔ انسانیت کے لیے اُس کی خدمات کو دیکھتے ہوئے اُسے ٢٠٠٥ء میں Young Australian of the Year Award کے لیے نامزد کیا گیا۔ وہ ایک پروگرام میں تھا جب اُس کے سننے والوں میں سے ایک خوبصورت لڑکی کھڑی ہوئی اوراُس نے سوال کیا:”آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی”؟اُس نے جواب دیا:”ابھی تک کوئی ایسا ملا ہی نہیں”۔ لڑکی نے کہا:”کیا آپ مجھے سے شادی کریں گے”؟اور اس طرح دو خوبصورت لوگوں کی داستان ِ حیات چل نکلی۔ ٢٠١٠ء میں اُس کی پہلی کتاب Life without Limits: Inspiration for Ridiculously Good Lifeمنظرِ عام پر آئی اس کے ساتھ ساتھ اُس نے Life without limbs کے نام سے ایک ادارہ قائم کر رکھا ہے۔

وہ اکثر کہتا ہے :”No arms, No legs, No worries” وہ اپنے بیگ میں ایک عدد جوتوں کا جوڑا رکھتا ہے وہ اس لیے کہ وہ عجوبوں پر یقین رکھتا ہے۔ ٣٢ سالہ Nick Vujicic بغیر بازوں اور ٹانگوں کے فٹ بال اور سوئمنگ سمیت بہت سے کھیل کھیلتا ہے اور اپنی زندگی کو مزے سے جی رہا ہے۔ وہ ہر روز ہزاروںلوگوں کو اپنی کہانی سے درس دیتا ہے کہ زندگی اتنی بُری نہیں ہے جتنا ہم اِسے سمجھتے ہیں۔ یہ کہانیا ں سنانے کا مقصد اُن لوگوں میں مثبت سوچ کے ساتھ زندگی کے بارے میں سوچنے کی اُمنگ پیدا کرنا ہے جو مایوسی کی اندھیری کوٹھری میں مرمر کر جی رہے ہیں۔ لوگو! پریشانیوں کواپنے اُوپر سوار مت کر لینا یہ تو آتی ہی جانے کے لیے ہیں اور جاتے جاتے تم کوئی نیا سبق دے جاتی ہیں۔ مشکلات میں سے بھی اپنے کام کی چیز کھوجنا ہی زندگی ہے۔ وقت نے ہر صورت گزرنا ہے سانسوں کی مالا نے ہر پل ٹوٹنا ہے اب یہ تم پر ہے کہ وقت کو تم گزارتے ہو یا وقت تم کو گزارتا ہے ۔ اپنے وجود کے بارے میں جاننے کا جنون اگر آپ کو بے چین کرے تو اِن الفاظ کر پڑھنا اور کچھ پل ٹھہر کر اِ ن کے بارے میں سوچنا ضرور۔
“When there are millions and billions of people in this world. Then Why God has created you?
God wants something special from YOU which the billions cannot do”.
جب تک دم میں دم ہے سوئے منزل بڑھتے رہو۔
“If you want to know. Whether your mission on this planet Earth has been completed?
If you are ALIVE. Then it is NOT”.

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر : شاہ فیصل نعیم