زہریلا سفید دودھ یاخاموش قاتل

Milk

Milk

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
دودھ مکمل غذا، ننھے بچوں کی نشوونما کے لیے انتہائی ضروری مگر راتوں رات سرمایہ دار بن جانے کے خواہشمند انسانوں کے روپ میں خونخوار بھیڑیے اس میں درجنوں قسم کے کیمیکل ڈال کر اسے سخت مضر صحت اور جان لیوا بنا رہے ہیں۔ انسانوں کا روپ دھارے ناسوروں کو زہریلے دودھ بنانے پر کم ازکم درجن بار پھانسی دی جانی چاہیے اور وہ بھی کھلے عام شہروں کے بڑے چوکوں پر تاکہ یہ عبرت کا نشان بن جائیں اور ان کا حشر دیکھ کر ان کے دیگر کمینہ خصلت اور حرام خور ساتھی ایسے کاروبار سے مکمل توبہ تائب ہو جائیں مگر چونکہ حکومتی با اثر افراد کی ہیرا پھیریوں، کرپشنوں اور سرکاری خزانوں سے لوٹ مار کا حساب کتاب لینے والا تک نہ ہے۔

نیب ایف آئی اے و دیگر تحقیقاتی اداروں کے ذمہ داران کے ان کی طرف بڑھتے ہوئے پیر جلتے ہیںکہ جن کا کھاتے ہیں انہی کا گاتے ہیں والا مقولہ انتہائی فٹ بیٹھتا ہے حکومتی سرخیل ملازمت ہی سے نکال ڈالیں تو بیوی بچوں کو کوئی بھوکوں نہیں مار سکتا اس لیے اونچے عہدوں والوں سے کمپرومائز والی پالیسی ہی افسران کو راس رہتی ہے جعلی اور دو نمبر دودھ کے استعمال کے اثرات انتہائی گھنائونے اور گھمبیر نکل رہے ہیں معصوم بچے تو جسمانی طور پرکمزور ،ان کے گال پچکے ہوئے اور ان کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی محسوس ہوں گی ۔معاشرہ کے خونخوار اژدے دودھ میں کھانے کا تیل بلیچنگ پائوڈر کیلشیم ہائیڈرو آکسائیڈ یوریا کھاد، کار بوکسی میتھائیل ،سیلولوزپائوڈر،کپڑے دھونے کا پائوڈروغیرہ ملا دیتے ہیں ۔اسطرح دوددھ اصلی گاڑھا اور میٹھا محسوس ہوتا ہے یہ سبھی اشیاء جسم کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہیں۔

عوام کی صحتیں مکمل برباد ہو کر رہ جاتی ہیں اوپر مذکورہ اشیاء کے علاوہ بھی سلفیٹ اور مالٹوز کی آمیزش اپنے مضر صحت اثرات رکھتی ہیں ہائیڈروجن پر آکسائیڈ سالٹ تو روزمرہ کی لیٹرینوں کو صاف کرکے چکمدار بنانے اور زخمی مریضوں کے زخم دھونے کے لیئے ہو تا ہے فارمالین میں موجود فارمل ڈی ہائیڈ تو میڈیکل کالجوں کے اناٹومی ڈیپارٹمنٹس میں مردہ لاشوں کو محفوظ رکھنے اور ان کے جسم کو جلد بدبودار ہو کر گل سڑنے کے لیے مستعمل ہے ڈیٹر جنٹ سے تو کپڑوں کی صفائی کی جاتی ہے اس طرح دودھ میں ملا کاسٹک سوڈا (سوڈیم ہائیڈرو آکسائیڈ)تو بند پائپوں نالیوں گٹروں کو کھولنے کا ایٹم ہے جو کہ انتہائی زہریلا اور جان لیوا سالٹ ہے جس سے آنتوں کی سوزش السر ااور پھر کینسر ہو سکتا ہے۔

Toxic White Milk

Toxic White Milk

معدہ اور سانس لینے والی نالیاں بھی کینسر کا شکار ہو سکتی ہیں۔کاربونیٹ کے مسلسل استعمال سے انسانی تو لیدی نظام پر مضر اثرات مرتب ہو کر انسان بچے پیدا کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو سکتے ہیں دودھ میں فارمولین ہو تو الٹیاں آتی اور پیٹ کی بیماریاںاور مروڑ اٹھتے ہیں حتیٰ کہ آنتیں زخمی ہو کر ناکارہ ہوتی چلی جاتی ہیں۔یوریا تو ویسے ہی کھاد کا نام ہے جس سے پیشاب کی مختلف بیماریاں یورک ایسڈ کی زیادتی اور گردوں میں پتھریاں بنتی ہیں۔

بورک ایسڈ بھی تیزاب کی ایک قسم ہے بچوں کی پیدائش میں آسانی پیدا کرنے اور خون کو روکنے کے لیے آکسی ٹوسن ٹیکہ لگایا جاتا ہے مگر ادھر جانوروں سے دو دھ دوھنے کے لیے مستعمل ہے غرضیکہ مزید بھی دودھ بیچنے والے زہریلی اشیاء ڈالتے رہتے ہیں۔اس طرح پچیس تیس کیمیکل دودھ میں ملے معاشرے کی تباہی کاسامان پیداکر رہے ہیں غرضیکہ انسانوں کی طرف سے استعمال ہو نے والا بال صفا پائوڈر بھی ڈال دیتے ہیں پنسلین ڈالنے سے دودھ میںخوشبو محسوس ہوتی ہے اور عرصہ تک بدبو پیدا نہیں ہونے پاتی۔

پنجاب میں تو آئی جی اور چیف سیکریٹری کو ماہانہ خصوصی چار چا رلاکھ کا فالتو الائونس دیا جاتا ہے پھر بھی یہ مکرو ہ اور غلیظ کاروبار جاری ہے تو اچھنبا ہی ہو سکتا ہے در اصل چوری دکیتی اغوا ملاوٹ جوا ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس میں متعلقہ تھانیدار کا حصہ نہ ہو۔اسی لیے میل ملاپ کے ذریعے یہ جعلی زہریلا دودھ و دیگر دو نمبر ادویات و کھانے پینے کی اشیاء کا کاروباریوں دلیری سے جاری ہے ایسے کاروباروں کو سختی سے بند نہ کیا گیا تو آئندہ نسلیں معذور اور بیمار پیدا ہو کرزندہ درگورہوتی رہیں گی۔اور ہم لڑے بغیر ہی دشمن کا ترنوالہ بنے رہیں گے ۔یہودو نصاریٰ اور لادین سامراجیوں نے مسلمانوں میں سود کو رواج دیکر سرمایہ کی وہ کشمکش پیدا کردی ہے کہ ہمارے بیشتر نام نہاد مسلمان دو نمبر مال تیار نہ کریں تو شاید انھیں الٹا نقصان اٹھانا پڑے مزید یہ کہ کروڑوں اربوںروپے کما کر لوگ جلداز جلد زرداری اور شریف برادران جیسی عیاشیانہ زندگیاں بسر کرنا چاہتے ہیں وما علینا الالبلاغ۔

Mian Ihsan Bari

Mian Ihsan Bari

تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری

fevicol instead of milk

fevicol instead of milk