سانحہ گلشن پارک لاہور، مسیحیوں پر ایک اور حملہ

Tragedy-Gulshan Iqbal Park

Tragedy-Gulshan Iqbal Park

تحریر: اقبال کھوکھر

نفرت کی آگ کتنے گھروں کو جلا گئی
اک بھیڑ سی لگی تھی کفن کی دکان پر

اپنے پیاروں کے لاشے اٹھاتے اٹھاتے ہم تھک چکے، کوئی چہرہ خوشحال نہیں دکھتا، ہر چہرہ اداس، ہر گھرانا اداس، ہر فردکی آنکھوں میں انجانا خوف، ہر زبان سراپا سوال، ہر صورت بے بسی کی تصویر، ہر جگہ ایک ہوکا عالم، معاشرے کا ہر فرد ہی دوسروں سے نالاں، افسردگی، افسوس اور دکھ کا احساس واضح ہونے کے باوجود خاموشی کا زہر دن بدن ڈستا جاتا ہے۔

اس سارے ماحول اور دہشت زدہ صورتحال کے ذمہ داران پھر بھی بس نہیں کرتے اوراسی کیفیت کا فائدہ اٹھاتے پھرایک دھماکہ کردیتے ہیں جس سے سینکڑوں گھر اجڑ جاتے ہیں،کئی کلیاں پھول بننے سے پہلے ہی مرجھا جاتی ہیں،ہزاروں کا معذوری واپاہج پن مقدر بن جاتا ہے،سفاک اور ظالم گروہ جنت کی تلاش میں معاشرے کو دوزخ بنانے پر تلا ہوا ہے۔ملک کے ہر شہری سے اقدار واخلاق چھین کرنفرت کے بیج بونے میں سرگرداں افراتفری کی جو صورتحال پیدا کرنا چاہتا ہے بدقسمتی سے وہ قدرے کامیاب ہے،گروہ بندی،دشمنی، نفرت سے مزین خانی جنگی کی فضا اس کی منزل ہے۔پاک فوج کے دلیرانہ اقدامات کے باعث اس نے کمزورپہلوئوں پر کارروائیاں کرنا شرع کر دی۔

ملک کے پہلے سے ہی مظلوم ومحکوم ومجبور طبقہ اقلیتوں (مسیحیوں) کا مذہبی تہوار اور اتوار کا دن تھا۔پاکستان کے سب سے بڑے آبادی والے صوبے پنجاب کے دارالحکومت زندہ دلان لاہور کے مشہور” گلشن ِاقبال پارک” میں اس وجہ سے قدرے زیادہ رش تھا ۔مسیحی فیملیوں سمیت لوگوں کی بڑی تعداد تھی،خوبصورت ملبوسات پہنے بچے پھولوں کی طرح چہک رہے تھے سب خوش تھے اور خوشی کے قہقے جاری تھے کہ اچانک ایک خوفناک دھماکہ ہوتا ہے اور خوشی کے قہقے ماتم میں بدل جاتے ہیں۔ہر طرف چیخ وپکار،سسکیوں،رونے،دوڑنے،آہوں کا شور برپا ہوجاتا ہے،لاشوں کے ٹکڑے،اپنے پیاروں کے اعضائ،خون میں لت پت لوگوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔

Suicide Blast in Gulshan-e-Iqbal Park

Suicide Blast in Gulshan-e-Iqbal Park

دکھ،افسوس کی فضاء میں شور مچ گیا دہشت گردوں نے حملہ کر دیا جس کی وجہ سے بھگڈر مچ گئی اپنی جان بچانے کی کوشش میں ایک دوسرے کے نیچے آکر بھی مئی جانیں گئیں۔ والدین اپنے بچوں کے لئے چیخنے چلانے لگے کچھ اپنے پیاروں کو دیوانہ وار تلاش کرنے لگے چند لمحوں کے بعدپتہ چلاکہ دہشت گردی کا یہ واقعہ خودکش حملہ تھا جس میں 20 کلو سے زائد بارودی مواد استعمال کیا گیا۔پھر پولیس، آرمی کے جوان اور کمانڈوزکے ساتھ ساتھمعتدد انسان دوست بھی امدادی سرگرمیوں میں کوشاں نظر آئے۔ لاہور بھر کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی دہشت گردی کے اس بدترین واقعہ میں 33 بچوں17خواتین سمیت 91سے زائد جانیں ضائع ہوگئیں۔اچھا یہ دل دہلا دینے والے مناظر پہلی بار دیکھنے کو نہیں ملے۔

چند دن قبل بلوچستان سے گرفتار”را” کے ایجنٹ بھوشن یادو نے دوران تفتیش یہ انکشافات کرتے ہوئے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوںکا اعتراف کیا تھا اور کہا تھا کہ ملک کے کئی شہروں میں اس کے ساتھی موجود ہیں۔یہ انکشافات تشویش ناک بھی ہیں۔ آرمی پبلک سکول ،باچاخان یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں پرپے در پے حملوں کے باعث معلوم ہوتاہے دہشت گردوں نے بچوں کو ٹارگٹ کرلیا ہے شاید یہ ان کا آسان ہدف ہے جس سے خوف وہراس زیادہ پھیل رہا ہے۔

بچوں پر حملہ دہشت گردوں کی بزدلانہ کارروائی ہے مگر یہ ہمارے مستقبل پر حملے کے مترادف ہے ۔ سانحہ گلشن ِ اقبال نے ایک بار پھرپوری قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم محفوظ نہیں ہیں دہشت گرد جب اور جہاں چاہیں حملے کر سکتے ہیں۔ گلشن اقبال پارک میں دہشت گردی سے ہماری ایجنسیوں، حکومتی اداروں اور وزارت ِ داخلہ کی ناکامی بھی ہے اس سانحہ نے بہت سوال اٹھائے ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جانی چا ہیے۔کس کو قصوروار ٹھہرائیں؟کس کو مجرم کہیں۔

میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟
سارے شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

عینی شاہدین کے مطابق پارک میں سکیورٹی کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا،را کے ایجنٹ کی گرفتاری،دہشتگردوں کی طرف سے واضح دھمکیوں اورمسیحی تہوارایسٹر کی نسبت سے بھی یہاں خاص حفاظتی انتظام نہیں کئے گئے تھے۔سی سی وی کیمرے تک بند تھے،پرائیویٹ ناکافی گارڈز تھے۔

Terrorism

Terrorism

ایسا کیوں تھا؟ یہ عام سوال ہیں جو ہر دردمند شہری کی زبان پر ہیں پھر ہسپتالوں میں بھی کئی معاملات توجہ طلب رہے۔مذکورہ بالا سوالات سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا۔۔۔؟ہم اپنے پیاروں کے لاشے کب تک اٹھاتے رہیں گے۔۔۔؟ تحفظ، امن اور سلامتی کب میسر ہوگی۔۔۔؟ امن کی خواہش میں عوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ یہ مملکت ِ خداداد تاقیامت قائم دائم رہے یہ ہرمحب وطن پاکستانی کی دعا ہے اور سلامتی کی دعا و ملکی بقاء پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ تمام تر مصلحتوں و سیاسی دوراندیشیوں سے بالاتر ہوکراپنے ہی بنائے قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد میں سنجیدگی دکھائے اور اس حوالے سے اپنی صفوں کو درست ومتفق کرنا بھی ضروری ہے۔دہشت گرد عناصرکی ہر شکل کا خاتمہ ہی امن کی ضمانت ہے چاہے اس کا تعلق اپنوں سے ہو یا غیروں سے۔ انسانیت کے قاتل و امن دشمن کسی رعائت کے مستحق نہیں۔ یہی حالات کا تقاضا اور امن قائم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ورنہ دنیامیں یہ تاثرپیدا ہورہا ہے کہ ہم اپنی ذ مہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

سانحہ گلشن پارک اصل میں دہشت گردوں کا مسیحیوں پر حملہ تھا۔ویسے بھی اس ملک میں اقلیتوں کے تحفظات دور کرنے میں حکمران پہلے ہی ناکام ہیں اور ان کی شکایات دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔ ان کے مذہبی تہواروں میں ان کو احساس تحفظ دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ پورا نہ کرنے والی ریاست کبھی بھی بانی پاکستان کا خواب پورا نہیں کرسکتی اور نہ ہی تاریخ میں قابل فخر مقام حاصل کرتی ہیں۔

Logo Iqbal Khokhar

Logo Iqbal Khokhar

تحریر: اقبال کھوکھر