قبائلی علاقے، معدنیات کے خزانوں سے مالا مال

Pakistan Minerals

Pakistan Minerals

تحریر: غلام حسین محب
پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے جہاں قدرتی وسائل کے بے تحاشا خزانے موجود ہیں یہ اور بات ہے کہ ان نعمتوں کو کتنا کام میں لایا گیا ہے۔ ملکی سطح پر ہر علاقہ میں کسی نہ کسی شکل میں قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں مگر بلوچستان پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی نظرہے جہاں سونا ،چاندی،لوہا ،کوئلہ، تیل،گیس اور تانبا وغیرہ کے ذخائر ہیں اور ماہرین کے مطابق یہ ذخائر اتنے وسیع ہیں کہ سینکڑوں سال تک کے لیے کافی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان امن و امان اور دوسرے ایسے مسائل سے دوچار ہے جن کی وجہ سے ان ذخائر سے فائدہ نہیں اٹھا سکا دوسری طرف ہمارے سیاسی راہنما بھی اجتماعی سوچ سے عاری اور خودغرضی کی بیماری کا شکار ہیں کہ ہر دور حکومت میں کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کیا جا سکااور مسائل جوں کے توں ایک حکومت سے دوسری حکومت کو وراثت میں منتقل ہوتے جاتے رہے ہیں اور پھر الزامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ان بیش بہا خزانوں سے مستفید نہ ہو سکے۔ بلوچستان کے بعد دوسرے نمبر پر فاٹا کے قبائلی علاقے ہیں جو طویل پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہیں اور جہاں بیش قیمت قدرتی وسائل اور معدنیات کے خزانے موجود ہیں ۔باجوڑ سے لے کر وزیرستان تک ہرقبائلی ایجنسی میں مختلف قسم کی معدنیات پائے جاتے ہیںجن میں سونا، تانبا، لوہا،کرومائٹ، نپرائٹ،سنگ مرمر، زمرد، یاقوت،زبرجد، بلور ،کوئلہ اور ماربل وغیرہ وافر مقدار میں موجود ہے۔

باجوڑ ایجنسی میں ماربل، زمرد، نپرائٹ، بلور اور زبرجد وغیرہ کی کانیں پائی جاتی ہیں ۔ مہمند ایجنسی میں دنیا کا مشہور سپر وائٹ ماربل پایا جاتا ہے جو زیارت کے مقام پر نکالا جارہا ہے۔لیکن بدقسمتی سے اس کان پر گزشتہ کئی ماہ سے کام بند ہے کیونکہ اسی کان میں پہاڑی تودہ گرنے سے کئی قیمتی جانیں ضایع ہوئی تھی۔ انتظامیہ کے مطابق اس حادثے کی ذمہ داری متعلقہ ٹھیکدارووں پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے ایسی کان میں کام جاری رکھا جو خطرناک تھا۔جبکہ ٹھیکداروں کے مطابق یہ ایک قدرتی حادثہ تھا جس کا انہیں بھی دکھ ہے مگر حکومت کی جانب سے کام کی بندش سے سینکڑوں لوگوں کا روزگار متاثر ہوا ہے جو ایک زیادتی ہے۔ مہمند ایجنسی میں درجنوں اقسام کے ماربل پیدا ہوتے ہیں جو مختلف تحصیلوں میں ہیں۔اکثر منرلز اور جیمزکی کانوں پر قبائلی تنازعات ہوتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے کہیں کام بند اور کہیں چالو ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف ان قیمتی معدیات کو پرانے اور غیر محفوظ طریقوں سے نکالا جاتا ہے جس سے آدھے سے زیادہ پیداوار ضائع ہوجاتی ہے ۔ اس قیمتی معدن کو صحیح اور کارآمدطریقے سے نکالنے کے لیے جدید مشینری کی ضرورت ہے جو حکومتی سرپرستی میں ممکن ہے۔ اسی طرح مہمند ایجنسی میں لوہا، کرومائٹ ، سوفٹ سٹون ،سرپینٹین اور نپرائٹ جیسے قیمتی پتھر بھی پائے جاتے ہیں علاوہ ازیں زمرد،زبرجد،بلور ، جسپر، سوئم، سونا مکی، تامڑہ یاقوت، کے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں۔

خیبرایجنسی میں بھی اسی طرح قیمتی معدنیات موجود ہیں اور ایسے ہی اورکزئی، کرم، اور وزیرستان میں مختلف قسم کے قیمتی پتھر اور معدنیات کے ذخائر موجود ہیں۔ان میں سے صرف ماربل کی کانوں میں کام ہو رہا ہے جبکہ قیمتی پتھروں جیمزکی کانوں میں کام نہ ہونے کے برابر ہے اس کی وجہ حکومت کی عدم توجہ اورجیمز کے ماہرین کا نہ ہونا ہے۔ اسی طرح تمام فاٹا میں ان قیمتی پتھروں اور دھاتوں کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ان کانوں میںسے مقامی ٹھیکدار اور عام لوگ اپنی محنت وسعی سے بہت کچھ حاصل کرتے ہیں لیکن اصل میں وہ بہت کچھ ضائع کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس نہ تو جدید تقاضوں کے مطابق مشینری موجود ہے اور نہ اس کام کے ماہرین ۔اسی وجہ سے ان قیمتی معدن کا کافی حصہ ضائع ہوجا تا ہے۔مہمند ایجنسی کی تحصیل امبار، تحصیل صافی، تحصیل پنڈیالی، تحصیل حلیمزئی اور تحصیل خویزئی میںمختلف قسم کے قیمتی ماربل ،کرومائٹ، نپرائٹ کے علاوہ زمرد ،یاقوت،لاجورد وغیرہ پائے جاتے ہیں۔مہمندایجنسی میں ماربل کے کئی اقسام پائے جاتے ہیں جن میں سپر وائٹ کے علاوہ ریڈاینڈ وائٹ،گرے، بادل، سلکی وغیرہ قبل ذکر ہیں۔ان کا ایک اچھا پہلو یہ ہے کہ اس کے ٹائل بننے کے علاوہ کرش، چپس،اور کراکری کے لیے پاؤڈر بنتا ہے۔

Pakistan Tribal Area

Pakistan Tribal Area

بدقسمتی سے قبائلی علاقے پہلے توایف سی آر کی وجہ سے محرومی اور پسماندگی کا شکار تھے جبکہ گزشتہ پندرہ سالوں سے دہشت گردی کی وجہ سے یہاں کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا۔اگر حکومت ان علاقوں پر توجہ دے کر پہلے ایف سی آر کا خاتمہ کرے اور پھر ان علاقوں میں چھپے قدرتی وسائل پر کام شروع کرے تو جتنے زیادہ یہ علاقے غربت اور پسماندگی کا شکار تھے اتنی ہی تیزی سے یہ ترقی وخوشحالی کی طرف جاسکتے ہیں۔کیونکہ یہاں کے قدرتی وسائل پر اگر صحیح کام کیا جائے تو یہ ملکی سطح بھی پر زر مبادلہ کی مد میں نہایت سود مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ لیکن بشرطیکہ ان کانوں تک رسائی اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں۔اکثر ایسے علاقوں میں سونے، کرومائٹ اور نپرائٹ کے ذخائر پائے جاتے ہیں جہاں تک روڈ نہ ہونے کی وجہ سے رسائی اور وہاں سے مال مارکیٹ تک پہنچانا ممکن نہیں۔ایک اہم چیز ان علاقوں میں قومی تنازعات ہیں جن کی وجہ سے اکثر کام بند کیا جاتا ہے اور پھر سالوں تک کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

ایک اہم اورقابل توجہ بات یہ ہے کہ طالبانائزیشن شروع ہونے کے بعد جہاں تمام طبقے متاثر ہوچکے تھے وہاں ماربل کا کاروبار بھی بری طرح متاثرہوا حکومت کی طرف سے ٹھیکداروں پر یہ الزام لگا کہ وہ طالبان کو باقاعدہ بھتہ دیتے ہیں یہ بات کافی حد تک درست تھی کہ ماربل ٹھیکدار وں کو اپنی جانیں عزیز تھی اس لیے وہ مجبور تھے کہ طالبان کو انکا حصہ دے۔اب جبکہ حالات سازگار ہوئے ہیں تو حکومت نے کانوں کے لیز کے حوالے سے وہ پالیسی وضع کی ہے جو پہلے پختونخوا میں رائج تھی۔ اب ہرٹھیکدار ایک مقررہ وقت کے لیے لیز پرکام شروع کرسکتا ہے لیکن وہ باقاعدہ رجسٹریشن کی صورت میں ہوگا۔یعنی ساری تفصیل اس معاہدے کا حصہ ہوگی کہ کتنے وقت کا لیز ہے مذکورہ کان کہاں پر ہے اور کس قبیلے کی ملکیت ہے۔اس معاہدے کے وقت متعلقہ قبیلہ کی موجودگی ضروری ہوگی اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کان میںکوئی اورایشو تو نہیں۔اسی طرح کان مالکان اور قبیلوں کے حصوں کا تعین وغیرہ یہ سب کچھ اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ کی نگرانی میںہوگا اور باقاعدہ منظوری پولیٹیکل ایجنٹ دیگا۔

اسی طرح ان مائنز کی ایک قسم مانیٹرنگ کی جائیگی۔اور ان کی آمدن اور خرچ وغیرہ کا حساب کتاب ہوگا۔ قبائلی علاقوں میں چھپے ان ذخائر سے بھرپور استفادہ کرنے کے لیے حکومت کوئی بھی طریقہ اختیار کرتی ہے تو کسی کو اعتراض نہیں مگر کام شروع ہونا چاہیے تاکہ ملکی وسائل اور زرمبادلہ میں اضافہ کا باعث بنے اور ساتھ ہی قبائل کا مستقبل ترقی و خوشحالی کی نوید ثابت ہو۔قبائلی عوام کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر افغان تجارت پر ہوتا تھا جوکافی عرصے سے تعطّل کا شکار رہا ہے اس کے متبادل کے طور پر اگر حکومت ماربل سمیت دیگرمعدنی پیداوار پر توجہ دے اور جدید تقاضوں کے مطابق سہولیات دے تو قبائلی عوام کی معاشی ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔

Ghulam Hussain Mohib

Ghulam Hussain Mohib

تحریر: غلام حسین محب