قبائلی دیہی ترقی زراعت وجنگلات

Tribal Area

Tribal Area

تحریر : شکیل مومند
بلدیات اوردیہی ترقی (LGRD) کے ڈائریکٹریٹ قبائلی علاقہ جات میں چھوٹے منصوبے بشمول صحت وصفائی چھوٹی سڑکیں،کھویں، ہینڈ پمپ اور چھوٹے آبپاشی کے منصوبے فراہم کررہا ہے۔ قبائلی علاقہ جات میں دیہی ترقی کا مسئلہ بھی دیگر مسائل کیطرح پیچیدہ ہے۔ پانی کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اور چھوٹے سڑکوں کی غیر موجودگی میں بہت سے دیہی علاقوں تک رسائی مشکل ہے۔ مارکیٹوں تک رسائی نہ ہونے کیوجہ سے لوگوں کی روزگار اور مقامی پیدا وار کی صلاحتیتں بُری طرح متاثر ہورہی ہے۔ حکومت اس ضمن میں ترجیحی طور پر پینے کا پانی اور صفائی کی سہولیات کی گھر گھر فراہمی زرعی پیداوار کی مارکیٹ تک رسائی تفریحی سہولیات کیلئے منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ فنڈز نہ ہونے کیوجہ سے محکمہ خاص کارکردگی کا حامل نہیں ہے۔ زرعی شعبہ قبائلی عوام کی شہ رگ حیات ہے اور انکی دیہی معیشیت کا ایک بنیادی ستون ہے۔ کل رقبے کا صرف 7فیصد زیر کاشت ہے اور پیداوار بھی بہت کم ہوتی ہے۔ دور دراز کے دیہی علاقوں میں پوست کی کاشت پابندیوں کیوجہ سے بہت کم ہوگئی ہے۔ جوکسانوں کیلئے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔

مقامی کسانوں کو بہتر بیچ ،ادویات اور زرعی خدمات بہت کم دستیاب ہونے کیوجہ سے انکی زرعی آمدن بہت کم ہے۔ انفراسٹرکچر اور ذرائع آمدورفت ہونے کے محدود ہونے کی وجہ سے کسان مقامی مارکیٹوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔ اور نہ ہی جدید تربیت اور معلومات اُن تک پہنچ سکتی ہے۔ سالانہ ترقیاتی پروگرام ADP کے ذریعے حکومت زراعت کی بہتری کیلئے لامحدود اقدامات کئے۔ حکومت کو چاہئے بنجر زمینوں کو زیر کاشت بنائیں ۔بے موسم سبزیوں کی کاشت ،پھل دار پودوں کے نرسریوں اور باغات کا قیام ماڈل زرعی فارم، چائے کی کاشت، زیتون کی پیوند کاری ، اور علاقے کے حوالے سے زرعی تحقیق اور سہولیات کا فروع زرعی ترقیاتی عمل میں غیر سرکاری تنظیمیں کچھ حد تک خدمات فراہم کررہے ہیں۔

Forestry

Forestry

جنگلات دیہی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔ مقامی لوگوں کی ایندھن چارے اور عمارتی لکڑی کی ضروریات جنگلات سے ہی پوری ہوتی ہے۔ جنگلات روزگار کا مواقع بھی فراہم کرتا ہے۔ مثلاً جنگلات کی کٹائی کی مزدوری، ڈھلائی لکڑی کی بار برداری اور فرنیچر کی تجارت ،ادویاتی جڑی بوٹیاں اکثر عورتیں اکٹھا کرتی ہیں۔ قبائلی علاقہ جات میں مجموعی طور پر کل علاقے کا 1.2 فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے۔ قبائلی علاقہ جات میں جنگلات کو 1974ء میں حکومتی تحویل میں لیا گیا اور محکمہ جنگلات صوبہ سرحد کے ماتحت اس کی ذمہ داری فاٹا فارسٹ سرکل کو دی گئی۔ 2004ء میں اس سرکل کو فارسٹ ڈائریکٹریٹ بنا دیا گیا ۔

لیک آج تک قبائلی علاقہ جات کے جنگلات کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔نتیجتاً نہ تو جنگلات کی حد بندی ہوسکی اور نہ ہی حکومت ان کی غیر قانونی کٹائی پر قابو پاسکی۔ جنگلات کی ملکیت ابھی روایتی طریقوں سے طے کی جاتی ہے۔ اور مقامی قبائل اپنے علاقے کے تمام جگلات اور چراہگاہوں کی ملکیت کا دعوہ کرتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں روایتی طریقوں سے اس کی کٹائی قابل قبول ہے۔یعنی کوئی فوتگی یا شادی بیاہ میں جنگلات کی کٹائی کی اجازت ہوتی ہے۔ اور ہر قوم اپنے حدود کو جانتے ہیں۔ ایجنسی دفاتر کی سرگرمیاں ،نرسریوں کی افزائش اور شجر کاری تک محدود ہیں۔ مقامی آبادیوں کے ساتھ ملکر گھریلیوں سطح پر نرسریاں لگانے ،زرعی زمینوں کیلئے حفاظتی باڑ لگانے ،ایندھن کے زرائع کو بڑھانے کیلئے محکمہ قبائلی علاقہ جات خدمات فراہم کررہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ قبائلی علاقہ ہمیشہ سرسبز ،زراعت یافتہ اورخوشحال رہے۔اور دیہی ترقی سے آباد رہے۔خوشحال فاٹا خوشحال پاکستان

تحریر : شکیل مومند