نوٹ وخا میرا موڈ بنے

Donald Trump

Donald Trump

تحریر : انجینئر افتخار چودھری
ٹرمپ ایک انتہائی چالاک بزنس مین ہے اس کا کوئی دوست نہیں اس کا کاروبار دوست ہے ہر کاروباری ٹرمپ ہوتا ہے چاہے وہ نواز شریف ہو ملک ریاض یا پھر ٹرمپ لوگ اپنے کاروبار دیکھتے ہیں فرق اتنا ہے کہ ٹرمپ یہ کاروبار امریکہ کے لئے کیا ہے ٣٨٠ ارب ڈالر کی رقم کتنی ہے بس یہ سوچ لیں چائینہ ہمارے ہاں ٥٤ ارب ڈالر لگا رہا ہے صرف چون ارب ڈالر اور ہم ہیں کہ اسے گیم چینجر کہہ رہے ہیں ایک کھرب ڈالر کی اسلحے کی خریداری اور اس کے علاوہ امریکہ میں ایک بڑی انویسٹمنٹ حضور سوچئے عرب چالاک ہیں بے وقوف نہیں۔بس یہ ذہن میں خیال رکھئے کہ مہمان جہاں اعلی ہوں گے مرضی ان کی چلے گی نواز شریف پرآیا غصہ تھوک ڈالئے۔ کھڑپینچ جہاں بھی ہوں اپنی مرضی کرتے ہیں یہاں راولپنڈی میں ایک ناشتے کی تقریب تھے شہر کا ایک بڑا بھی وہیں تھا میزبان بیچارہ کہیں بھی نظر نہیں آیا بڑے صاحب مائیک سامنے رکھ کر مہمانوں کو ہینڈل کر رہے تھے صحافیوں کی نشستیں لگانے کا حکم دے رہے تھے کوئی چوں بھی نہیں کر رہا تھا ان کی مرضی کے لوگوں کی تقریریں ہو رہی تھیں میں بھی ایک کونے میں بیٹھا دیکھے اور سنے جا رہا تھا میرے ذہن میں بھی تقریر کے نکات الجھ رہے تھا میں بھی دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ تقریر ایسے شروع کروں گا ایسے ختم ہو گی۔

میزبان کرسیاں لگوانے میں مصروف تھا بس وہاں جو بڑا تھا وہ ہی سب کچھ تھا۔میں نے ایک دوست کی مدد سے ایک کونے میں کرسی حاصل کی پہلے پہل تو بلکل پیچھے جگہ ملی بعد میں دوستوں نے ایک کونے میں جگہ دے کر مہربانی کر دی۔میں دیکھ رہا تھا کہ مہمان اعلی کے ہاتھ میں سگار ہے وہ ہر ایک کو سرکس کے گائیڈ کی طرح حکم دے کر اپنی اہمیت کا احساس دلا رہا تھا ہمارے ممبران اسمبلی بھی اس کے آگے بچھے جا رہے تھے اور پھر تقریریں شروع ہوئیں جو مصاحب خاص تھے انہوں نے اپنی تقریریں مہمان اعلی کی ذات با صفات پر کیں ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ آپ جناب ایک عظیم شخصیت ہیں آپ کے بغیر پنڈی کچھ بھی نہیں ہیں میری بغل میں ایک بزرگ کرنل صاحب بھی بیٹھے تھے جو موصوف مہمان بزرگ کے ایک جملے پر اچھل پڑتے تھے اس علاقے کی بڑی شخصیات نے اپنی باتوں میں مہمان اعلی کی تعریف کے پل باندھ دیئے۔پھر ممبران اسمبلی کی باری تھی ہر ایک نے حصہ بقدر جثہ ڈالا۔سب کی تقریریں ہو گئیں ناشتے کا اعلان ہو گیا سلفیاں بننی شروع ہو گئیں مجھے کسی نے نہیں بلایا۔میرے نکات میری سوچ وہیں ایک کونے میں دبی رہیں۔ بعد میں احساس ہوا کہ جو ہوا اچھا ہوا میں نے تو واپس آ کر لکھ بھی دیا کہ چوپڑیاں اور دو دو نہیں ملا کرتیں۔ میرے ساتھ تواتر سے ہوا ایک اور بڑی تقریب میں بھی لسٹ میں سے نام نکالا گیا اس لئے کہ بونے کہاں سایہ داروں کو برداشت کرتے ہیںیہی کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا۔

کل سے ایک شور مچا ہوا ہے کہ میاں نواز شریف کی تقریر کیوں نہیں ہوئی وہ جہاز میں تقریر کی جزوئیات طے کرتے رہے اپنے ساتھ جانے والے صحافیوں کے گروہ کو بھی کچھ ایسی چیزوں کے بارے میں بتاتے رہے کہ یوں ہوا تو یہ کہوں گا یہ ہوا تو ایسے کہوں گا ان کی جماعت کے اکابرین تو اپنی جگہ تھے جناب مجیب شامی صالح ظافر سلیم بخاری اور بڑے سینئر لوگ ان کے ساتھ تھے۔افراد کا یہ طائفہ اپنے طور پر انہیں ایسے ایسے مشورے دے رہا تھا گویا کہ میدان جنگ میں اترنے والے پہلوان کو دائو پیچ سکھائے جا رہے تھے۔وہاں پہنچے تو پتہ چلا یہاں مہمان اعلی کی پسند کے لوگ بولیں گے اور انہی کے پسندیدہ لوگوں کی نشست ان کے دائیں بائیں ہو گی۔

آپ نے دیکھا ہو گا کہ میزبان اور مہمان اعلی کے ساتھ پہلا شخص جنرل سیسی تھا۔یہ وہ بے حمیت شخص تھا جس نے مصر میں صدر مرسی کی حکومت کا تیا پانچہ کیا تھا لاکھوں مصریوں پر ٹینک چڑھا دئے تھے اخوان کی جد وجہد کو کچل کے رکھ دیا تھا وہاں کا معیار یہ تھا اللہ کا کرم ہے کہ پاکستان نے ایسا کوئی گھنائونا کام نہیں کیا ورنہ وہ بھی وہیں کھڑا رہتا ۔البتہ سارک کی کوئی میٹینگ ہوئی تو پھر سماں اور ہو گا۔اس سرکل میں شخصی حکمرانوں کی ایک لمبی قطار موجود تھی۔سچ پوچھئے تو اگر عمران خان پاکستان کے حکمران ہوتے تو انہیں بھی وہیں جگہ دی جاتی جہاں نواز شریف کو ملی تھی اس لئے کہ جگہیں افراد کو دیکھ کر نہیں ان کی حکومتوں کے اعمال اور کار کردگی کو دیکھ کر دی جاتی ہیں۔البتہ وہ بائیکاٹ کر جاتے یہ مجھے پورا یقین تتھا کہ وہ ایسا ہی کرتے۔پاکستان نے سعودی عرب کی اچھائیوں کے جواب میں دیا ہی کیا ہے۔اور امریکہ کے صدر کو بھی علم ہے کہ ایک جانب جب طالبان کو کھڑا کیا جا رہا تھا تو پاکستان ہی اس کا معمار تھا لیکن جب طالبان سے ہاتھ اٹھایا گیا تو پاکستان نے خفیہ طور پر ان کی مدد جاری رکھی اور جو ایک اچھا فیصلہ تھا۔خلیج کی جنگ میں جب مصر نے مشروط طور پر اپنی فوجیں سعودی عرب بھیجیں تو اس وقت جنرل اسلم بیگ قاضی حسین احمد صدام کے ساتھ کھڑے رہے۔یہ چمچوں اور کڑچھوں کی میٹینگ تھی اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ میاں نواز شریف اس کلوز سرکل میں نہ تھے ورنہ انہیں بھی چاپلوسانہ الفاظ کے علاوہ کیا کہنا پڑتا جو وہ لکھ کر لے گئے تھے۔کیا یہ ممکن تھا کہ وہ کھڑے ہو کر کہتے کہ جناب ٹرمپ آپ ہی جہاد کی سر پرستی کرتے ہو آپ ہی مسلمانوں کو لڑاتے ہو۔اور آپ ہی ہمیں درس دینے آئے ہو کہ جہاد کیا ہے؟ہاں مجھے پورا یقین ہے کہ اگر عمران خان وہاں ہوتے تو کم از کم جنرل یحی کی طرح اس اجلاس سے اٹھ کر آ جاتے۔پھر جو نتائیج پاکستان بھگتنا پڑتے وہ اور کہانی بنتی۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ پاکستان کی خوش بختی ہے کہ اسے سیسی کے ساتھ جگہ نہیں ملی اور نہ وہ کیمرے کی زد میں تھا،یہ ہمارے لئے سنہری موقع ہے کہ ہم اپنی پالیسی پر غور کریں۔دیکھیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟کیا پاکستان سعودی عرب کا دوست ہے یا نہیں۔ میں نے ایک بار امریکی سفیر جو ایک عورت تھی اسے بتایا کہ میں جبرل موٹرز میں کام کر چکا ہوں اس نے مجھ سے کارڈ مانگا میں اس وقت ٹویوٹا اسلام آباد میں کام کرتا تھا ہنس کر کہنے لگی پاکستانی دوستی کا دعوی امریکہ سے کرتے ہیں اور گاڑی جاپان کی چلاتے ہیں اسی طرح پچھلی سردیوں میں تیونس ایمبیسی کے ایک فنکشن میں سابق سعودی سفیر عبداللہ المرزوق الزہرانی نے مجھے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے شکوی کیا کہ پاکستان سے ہم دوستی کرتے ہیں پاکستان ہم سے دوستی نہیں کرتا اور اس نے خاص طور پر تحریک انصاف سے شکوہ کیا۔اصل میں ہم شکوہ تو کرتے ہیں کہ ہمارا وزیر خارجہ نہیں ہے لیکن حقیقت میں ہمارے دماغوں میں بھی ہیجان ہے کہ ہم کس کے دوست ہیں۔سنی ازم بڑھکتا ہے تو ہم سعودیہ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں سعودی اس طرح کا سلوک کرتے ہیں تو ایران اچھا لگتا ہے۔

ہم نے جنرل راحیل کو بھیجا ایسے جیسے دودھ میں مینگنیاں ڈالیں اور وہ دودھ پیش کیا۔اور جو بات میں نے اوپر لکھی ہے اس پر بھی غور کریں کہ کیا وہاں میز بان کی چلی یا نہیں۔پیٹرو ڈالر کی طاقت نے ٹرمپ کو جھک کر میڈل لینے پر بھی مجبور کیا اور تلوار پکڑ کر ناچنے پر بھی مجبور کیا۔سعودی عرب کی اپنی مجبوری بھی دیکھنا ہو گی ایک طرف ایران نے اسے ملک فہد پل کے پار گھیر رکھا ہے ایران میں دو دفع بغاوت ہو چکی ہے قطیف کے شیعہ علاقے میں یورش شاہ خالد کے زمانے سے جاری ہے ایک بار فضائی بمباری بھی کی گئی اس کے نجران کے علاقے جو یمن کے قریب ہیں وہاں بھی شیعہ قووتیں ایرانی اشارے پر انتظار کی کیفیت میں ہیں یمن میں حوثیوں کے پیچھے ایران کھڑا ہے ایسے میں اس نے ٣٨٠ ارب ڈالر کے نوٹ نچھاور کر کے مہمان اعلی کو نچایا ہے اور اپنی سلطنت کو بچایا ہے یہ ایران کی مہربانی ہے جو مظہر شاہ کی بھڑکیں لگا رہا تھا کہ ککھ نئیں چھڈاں گا تواڈا حرمین کے سوا سب کچھ تباہ کر دوں گا۔کسی زمانے میں بنئے پیسے دے کر غنڈے پالا کرتے تھے عربوں نے ایس کر لیا ہے تو کیا جرم کیا ہے۔ہم نے اسے باعزت حفاظت کرنے کا موقع بھی کھو دیا جنرل راحیل دیا بھی تو چھپ چھپا کے ۔دوسرے معنوں میں ٹرمپ نے دو ٹھمکے لگا کر سعودی عرب کا دورہ کر کے ثابت کیا ہے کہ سیاست میں کوئی بیان کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی مجھے کہنے دیں کہ وہ امریکہ کا مولانا فضل الرحمن ہے جو کسی دور میں گھاٹے کا سودا نہیں کرتے ۔صدر ٹرمپ نے اپنی اسلحے کی انڈسٹری کو چالو کر دیا ہے جو اوبامہ کی ناکامی قرار دی جاتی ہے۔

ٹرمپ ایک انتہائی چالاک بزنس مین ہے اس کا کوئی دوست نہیں اس کا کاروبار دوست ہے ہر کاروباری ٹرمپ ہوتا ہے چاہے وہ نواز شریف ہو ملک ریاض یا پھر ٹرمپ لوگ اپنے کاروبار دیکھتے ہیں فرق اتنا ہے کہ ٹرمپ یہ کاروبار امریکہ کے لئے کیا ہے ٣٨٠ ارب ڈالر کی رقم کتنی ہے
بس یہ سوچ لیں چائینہ ہمارے ہاں ٥٤ ارب ڈالر لگا رہا ہے صرف چون ارب ڈالر اور ہم ہیں کہ اس انویسٹمنٹ کو گیم چینجر کہہ رہے ہیں ایک کھرب ڈالر کی اسلحے کی خریداری اور اس کے علاوہ امریکہ میں ایک بڑی انویسٹمنٹ حضور سوچئے عرب چالاک ہیں بے وقوف نہیں۔بس یہ ذہن میں خیال رکھئے کہ مہمان جہاں اعلی ہوں گے مرضی ان کی چلے گی نواز شریف پرآیا غصہ تھوک ڈالئے ۔وہاں جو ڈانس ہوئے اس کے پیچھے پنجابی گانے کی یہ دھن مناسب سمجھی جاتی نوٹ وخا میرا موڈ بنے۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر : انجینئر افتخار چودھری