عفوو و درگزر سیرت النبی کی روشنی میں

Truths and Overlook

Truths and Overlook

تحریر: حسنین عطاری
حضرتِ سیِدنا انس رضی اﷲ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نبی کریمۖ کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نَجرانی چادر اَوڑھے ہوئے تھے جس کے کَنارے موٹے اور کُھردرے تھے، ایک دم ایک بَدونے آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی چادر کو پکڑ کراتنے زبردست جھٹکے سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی مبارک گردن پر چادر کی کَنار سے خَراش آ گئی ،وہ کہنے لگا :اللہ عزوجل کا جو مال آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کے پاس ہے، آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم حکم دیجئے کہ اُس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ رحمتِ عالَم ۖ اُس کی طرف متوجّہ ہوئے اور مسکرا دئیے پھر اُسے کچھ مال عطا فرمانے کا حکم دیا۔ اسی طرح حضرت سیِّدُنا اُبی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جسے یہ پسند ہوکہ اُسکے لیے(جنت میں)محل بنایا جائے اوراُسکے درجات بلند کیے جائیں، اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظلم کرے یہ اُسے معاف کرے اورجو اُسے محروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قطع تعلق کرے یہ اُس سے ناطہ جوڑے۔

اسلام کا بنیادی مقصد ہے سر تسلیم خم کردینا، امن و آشتی کی طرف رہنمائی کرنا اور تحفظ اور صلح کو قائم کرنا۔اسلام تحفظ، بچاؤ اور امن کا مذہب ہے۔ ہم اپنی نماز ختم کرتے ہوئے جب سلام پھیرتے ہیں تو اپنے دائیں بایئں والوں کو امن کی دعا دیتے ہیں ” تم پر سلامتی ہو اور رحمت ہو”۔ امن و امان، تحفظ، آشتی اور سکون کی دعاؤں کیساتھ وہ اپنی عام زندگی کی طرف ایک بار پھر لوٹ رہے ہوتے ہیں۔

دوسروں کو امن اور تحفظ کی دعائیں دینا اور نیک خواہشات کا اظہار کرنا اسلام میں بہت اہم اور کارآمد ہے۔ اسلام سختی، ظلم، یا شدت پسندی پر مشتمل نہیں ہے۔ یہ عفو و درگذر اور تحمل کا مذہب ہے جیسا کہ اولیاء کرام اور بزرگان دین نے اپنی زندگیاں تحمل اور برداشت سکھانے میں صرف کردیں اور ان میں ہر ایک اپنے وقت کا محبت اور تحمل کا امام تھا۔فخر کائنات محبت اور الفت کا نمونہ تھے آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کا ایک نام حبیب اللہ تھا۔ اسکا مطلب ہے محبت کرنے والا، اور وہ بھی جس سے محبت کی جائے۔ اسلام میں تحمل کی تعریف ایسی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کو بھی برا بھلا کہنے سے روکا ہے۔قرآن کریم بڑی شدت سے عفو و درگزر اور تحمل پر زور دیتا ہے ایک آیت میں نیک لوگوں کی صفت یوں بیان کی گئی ہے:”وہ غصے کو پی جاتے ہیں، اور دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔(آل عمران:134)

Muslims

Muslims

جس کسی ایک مسلمان کی طرف سے دوسرے مسلمان پر ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہو تو دوسرے کو چاہئے کہ وہ فوری طورپر اپنا غصہ پی کر آنکھیں بند کرلے۔کیونکہ قرآن کی آیت میں ہے “کظم” یعنی “نگل جانا:مگر زیادتی کرنے والے کو بھی گناہگار ٹھہرایا گیا ۔ کسی بھی مسلمان کو تکلیف دینا انتہائی ناپسندیدہ امر ہے اگر نادانستگی سے ایسا ہو جائے تو فوری اللہ اور اس مسلمان سے معافی کا طلب گار ہونا چاہئے،کیونکہ مسلمانوں کو آپس میں ایک جسم کی مانند قرار دیا گیا ہے ، کسی ایک حصے کی تکلیف پوری جسم کو بے آرام بنا دیتی ہے۔ مسلمانون کی صفات بیان کرتے ہوئے دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:”اور جہاں ان کو لغو بات یا رویہ سے واسطہ پڑتا ہے تو با عزت طریقے سے وہاں گزر جا تے ہیں”۔ (الفرقان:72)

حضوررحمتِ عالم صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا” اسلام محبت اور تحمل کا مذبب ہے۔ مسلمان تو محبت و شفقت کا پیکر ہوتا ہے جو کسی بھی قسم کی نفرت انگیز اور دہشت گردی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکتا۔زندگی خدا تعالی کی طرف سے سب سے بڑی اور نمایاں رحمت ہے اور سچی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت ہے۔ آقا نامدار حضرت محمدمصطنیٰ صلی اللہ علی وآلہ وسلم گہرے اندھیروں میں نور کا منبع ہیں۔اہل مکہ جو آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کے شہر والے تھے انہوں نے آپ کو اتنا ستایا کہ آخر کار آپ کو مدینہ ہجرت کرنا پڑی۔ حتی کہ ہجرت کے بعد بھی آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم اور مسلمانوں کو ستایا۔

لیکن نبوت کے اکیسویں برس جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے اہل مکہ سے پوچھا” تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو کہ تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟ ان سب نے جواب دیا: “آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم رحم دل ہیں ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے اپنا فیصلہ یوں سنایا “آج تم پر کوئی گرفت نہیں؛ اللہ تمہیں معاف کرے! اس لئے کہ وہ بہت معاف کرنے والاہے”۔جب ایک صحابی کا انتقال ہوا تو آپ نے جنازہ والوں سے پوچھا کہ متوفی مقروض تو نہیں۔ اور جب بتایا گیا کہ ایسا ہی ہے تو آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے مذکور الصدر آیت سنانے کے بعد فرمایا اگر کوئی قرض خواہ ہے تو آ کر مجھ سے اپنا قرضہ وصول کریں۔ سرکار مدینہ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کا ہی ارشاد ہے کہ مجھے لوگوں کے لئے زحمت بنا کر نہیں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔

Islam

Islam

کوئی بھی شخص اسلام قبول کر سکتا ہے اور کوئی بھی شخص کسی بھی وقت چاہے وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو، اللہ سے معافی مانگ سکتا ہے۔ حضرت عمر ایک مرتبہ 80 سالہ بوڑھے کو دیکھ کو بیٹھ گئے اور رونے لگے۔ کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے، “خدا نے اسکو اتنی لمبی عمر عطا کی ہے لیکن پھر بھی وہ صراط مستقیم تک نہ پہنچ سکا”۔”پیغمبر خدا صلی اللہ علی وآلہ وسلم بچوں کے ساتھ خصوصاً مہربان تھے جب کبھی وہ کسی بچے کو روتا دیکھتے تو اسکے ساتھ بیٹھ جاتے اور اس کے احساسات سنتے۔ ان کو بچوں کی ماؤں سے زیادہ ان کا درد ہوتا تھا ایک دفعہ آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے فرمایا۔”میں نماز کے لئے کھڑا ہو جاتا ہوں اور اسے لمبی کرنا چاہتا ہوں تو مجھے کسی بچے کی رونے کی آواز آتی ہے، جس کی وجہ سے نماز مختصر کرتا ہوں تا کہ اسکی ماں کی پریشانی کم ہو”۔

جب حضرت سعد بن عبادہ بیمار ہوئے تو آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم انکی عیادت کرنے انکے گھر گئے۔ اپنے ایک وفادار صحابی کی بری حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم سے رہا نہ گیا اور آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم کے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا: “خدا کسی کو آنسوئوں یا غم کی وجہ سے عذاب نہیں دیتا بلکہ اسکی وجہ سے عذاب دیتا ہے” اور آپ نے اپنی ‘زبان’ کی طرف اشارہ فرمایا”۔ قبیلہ مقرن کے ایک شخص نے ایک مرتبہ اپنی لونڈی کو مارا۔ اس نے اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ علی وآلہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے مالک کو بلایا اور فرمایا “تم نے ناحق اس کو مارا، اس کو آزاد کر دو”۔ ایک لونڈی کو آزاد کرنا آسان ہے۔

بجائے اس کے کہ برائی کا بدلہ کل قیامت کو ملے۔ رسول خدا صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے ہمیشہ بیواؤں، یتیموں، غریبوں اور معذوروں کی حفاظت اور مدد کی۔ جب آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم غار حرا سے پہلی وحی لیکر تحیّر کے عالم میں واپس آئے، تو انکی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے فرمایا:”مجھے امید ہے آپ اس قوم کے نبی ہوں گے اس لئے کہ آپ نے ہمیشہ سچ بولا، وعدے کو پورا کیا، اپنے اقربا کی مدد کی، غریبوں اور کمزوروں کی امداد کی اور مہمانوں کا کھاناکھلایا”۔ ایک شخص اپنی بھیڑ کے سامنے چھری تیز کر رہا تھا تو آپ نے اس سے پوچھا: “کیا تم اسے ایک سے زیادہ بار مارنا چاہتے ہو؟”

Ignorance

Ignorance

ایک مرتبہ حضرت ابو ذر ، حضرت بلال سے ناراض ہوئے اور کالی عورت کے لڑکے” کہا “حضرت بلال حضور صلی اللہ علی وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روتے ہوئے واقعہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علی وآلہ وسلم نے حضرت ابو ذر کو بلا کا تنبیہ کی اور فرمایا “کیا ابھی بھی تمہارے اندر جاہلیت کی نشانی موجود ہے؟” اس پر اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے حضرت ابو ذر زمین پر لیٹ گئے اور فرمانے لگے” میں یہاں سے اپنا سر اس وقت تک نہیں اٹھاؤں گا جب تک حضرت بلال اپنا پاؤں اس پر نہیں رکھ دیتے” حضرت بلال نے ان کو معاف کردیا اور اس طرح دونوں کی صلح ہوگئی”۔

یہ وہ تعلق اور رشتہ تھا جو اسلام نے ان لوگوں میں پیدا کیا تھا جو کبھی علم و آگہی سے نا آشنا ہوا کرتے تھے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے”اور اللہ کے بندے وہ لوگ ہیں جو زمین پر عجز و انکساری سے چلتے ہیں اور جب کوئی جاہل ان سے مخاطب ہوتا ہے تو یوں کہتے ہیں: سلامتی ہو (الفرقان: 63) “اور جب وہ بیہودہ بات سنتے ہیں تو وہاں سے منہ پھیر کر چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال اور تمہارے لئے تمہارے اعمال” (القصص: 55)

اسلام ایک امن کا دین ہے اوراپنے پیروکاراورتمام اقوام عالم کو پیار ، محبت اور امن کا درس دیتا ہے اور ہمیں بحیثیت مسلمان رواداری اور برداشت کو اپنا شعار بنانا چاہئے اور اللہ عزوجل کے حبیب ۖ کے مبارک اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بناتے ہوئے اپنی زندگیوں کو احکام شریعت کے مطابق گزارناہی عقل مندی ہے۔

Hasnain Raza

Hasnain Raza

تحریر: حسنین عطاری