ترکی کو ناکامی ہوئی تو امریکہ کی سلامتی کی پالیسیاں ناکارہ بن جائیں گی، خلیل دانش ماز

US Congress

US Congress

ترکی (جیوڈیسک) ترکی اور امریکہ کے مابین تعلقات کو فروغ دینے والی لابی ٹرکش ہیریٹیج آرگنائزیشن ٹی ایچ او کے سربراہ خلیل دانش ماز نے کہا ہے کہ اگر ترکی کو ناکامی ہوئی تو امریکہ کی سلامتی کی پالیسیاں ناکارہ بن جائیں گی۔

امریکی کانگریس کی سر پرستی میں منعقدہ پینل میں دہشت گرد تنظیم فیتو کی 15 جولائی کی انقلابی کوشش اور اس کے علاقے پر اثرات کا جائزہ لیا گیا ۔امریکی کانگریس کے خارجہ تعلقات کے اہلکاروں کی انجمن کے زیر اہتمام منعقدہ پینل میں ٹی ایچ اوکے سربراہ دانش ماز اور امریکن بزنس مین انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین میں سے مائیکل روبن نے شرکت کی۔

انقلابی کوشش کے بعد کانگریس میں پہلی بار منعقد ہونے والے پینل سے خطاب کرتے ہوئے دانش ماز نے کہا کہ فیتو کی انقلابی کوشش کے بعد واشگٹن میں ترکی پر کافی زیادہ تنقید کی جاتی رہی ہے ۔ ترکی اور امریکہ کے دو حلیف اور نیٹو کے طاقتور حصہ دار ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان گہرے نظریاتی اختلافات نظر آئے ہیں۔

انھوں نے امریکہ کی شام ،عراق اور ایران سے متعلق پالیسیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکی خفیہ اداروں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں تباہ کن خطائیں ہوئی ہیں۔ ترکی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات کے بعد اس سے ملتی جلتی خطائیں سر زد نہ کرنے کی ضرورت ہے۔

خلیل دانش مازنے اسطرف توجہ دلائی کہ امریکہ کی قومی سلامتی میں ترکی کا کردار انتہائی اہمیت رکھتا ہے ۔ اگر ترکی کو ناکامی ہوئی تو امریکہ کی سلامتی کی پالیسیاں ناکارہ بن جائیں گی اور علاقے میں بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے گا۔

انھوں نے امریکہ کیطرف سے 15 جولائی کو حکومت کا تختہ الٹانے کی ناکام کوشش میں فیتو کے سرغنہ فتح اللہ گؤلن کے ملوث ہونے سے متعلق دلائل دینے کے مطالبے کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے 11 ستمبر کے حملے اور اسامہ بن لادین کو مثال کے طور پر دکھایا اور کہا کہ 11 ستمبر کے حملے کے بعد جب اسامہ بن لادین کا عوامی دشمن کے طور پر اعلان کیا گیا تھا تو کیا اس وقت دلائل دیکھے گئے تھے۔

اگر اسوقت سعودی عرب اور افغانستان یہ کہتے ہیں آپ جلد بازی سے کام مت لیں اسامہ بن لادین اچھے انسان ہیں اور اگر آپ ایسا نہیں سوچتے ہیں تو واضح ثبوت پیش کریں تو اسوقت آپ کا ردعمل کیا ہوتا ؟ فتح اللہ گؤلن ایک مجرم ہیں ۔وہ امریکی شہری نہیں وہ ترک ہیں۔ اس مسئلے کو صرف ترکی کے مسئلے کی نظر سے دیکھنا اور اس مسئلے کو امریکہ تک لے جانا امریکہ کے قومی سلامتی کے مفادات سے تضاد رکھتا ہے۔