ترکی کی فوجی بغاوت سے میرا کوئی سروکار نہیں: گولن

Fethullah Gülen

Fethullah Gülen

واشنگٹن (جیوڈیسک) مسلمان عالمِ دین، فتح اللہ گولن نے اِن الزامات کو مسترد کیا ہے جِن میں کہا گیا تھا کہ وہ ترکی میں حالیہ بغاوت کی کوشش میں ملوث ہیں۔ اس الزام کے بعد، کسی زمانے میں قریبی اتحادی خیال کیے جانے والے اِن دو حضرات کے مابین تعلقات میں مزید دراڑ پڑ چکی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے بغاوت کی کوشش کا الزام امریکہ میں مقیم اپنے بڑے مخالف، گولن پر لگایا ہے جن کی ’ہزمت تحریک‘ کا ترک معاشرے پر اثر و رسوخ ہے، جن میں ذرائع ابلاغ، پولیس اور عدالت کے شعبہ جات شامل ہیں۔

گولن نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں فوجی بغاوت کی ’’شدید ترین الفاظ‘‘ میں مذمت کی گئی ہے اور اِن الزامات کو مسترد کیا ہے کہ اس کے پیچھے اُن کا ہاتھ ہے۔

بقول اُن کے، ’’حکومتیں آزاد اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے تبدیل ہونی چاہئیں، نا کہ طاقت کے بل بوتے پر۔‘‘ اُنھوں نے کہا ہے کہ میں ترکی، ترک شہریوں اور ترکی کی موجودہ صورت حال کے پُرامن اور فوری حل کے لیے خدا سے دعاگو ہوں‘‘۔

گولن کے بقول، ’’ایسے فرد کی حیثیت سے جس نے گذشتہ پانچ دہائیوں کے دوران کئی فوجی بغاوتوں کے دوران تکالیف سہی ہیں، خاص طور پر ایسا الزام کہ میں کسی ایسی کوشش سے سروکار رکھتا ہوں، ہتک آمیز ہے‘‘۔

حکومت مخالف احتجاج اور بدعنوانی کی چھان بین سے سابقہ پڑنے پر، اردوان نے اپنے مسائل کا کسی حد تک گولن کے عقیدت مندوں اور بیرونی طاقتوں پر الزام لگایا ہے۔

ترک صدر نے اکثر و بیشتر اپنے سابقہ اتحادی پر الزام عائد کیا ہے، جو امریکہ کی مشرقی ریاست، پنسلوانیا میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں کہ اُنھوں نے ہی اُن کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔

تاہم، اپنے پیغاموں میں، گولن نے کہا ہے کہ اردوان ’’فرسودہ سوچ ‘‘ کے مالک ہیں، اور وزیر اعظم کے اِن الزامات کو مسترد کیا۔

ادھر، امریکہ کو اردوان کے پچھلے دعووں کا کبھی کوئی قابلِ بھروسہ ثبوت نہیں ملا۔

ہفتے کے روز لگزمبرگ میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ گولن کی ملک بدری کی درخواست پر غور ہو سکتا ہے، لیکن اُس صورت میں کہ نیٹو کا اتحادی، ترکی اس ضمن میں جائز ثبوت پیش کرے جس سے گولن کی غلط کاری ثابت ہوتی ہو۔

کیری نے کہا کہ ’’ہمیں پورا یقین ہے کہ مسٹر گولن کے بارے میں سوالات اٹھائے جائیں گے‘‘۔

ترکی میں امام کی حیثیت میں، گولن نے اپنے پیرو کاروں کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ تعلیم حاصل کریں؛ اور اُن کی تحریک ترکی کی سرحدوں سے آگے پھیل چکی ہے، اور دیگر ممالک میں اُن کے سینکڑوں اسکول اور خیراتی مراکز قائم ہیں۔

سنہ 1990کی دہائی کے دوران امام کے ترکی کی سیکولر قیادت کے بارے میں خیالات بدلے، بیرون ملک اُن کی بین الاقوامی سرگرمیوں کا خاص مقصد یہ رہا ہے کہ ترکی اپنا کھویا ہوا بین الاقوامی مقام حاصل کرے۔

پچہتر برس کے عالم دین اسلام کے صوفیانہ خیالات کو فروغ دینے کے لیے جانے جاتے ہیں، جب کہ وہ جمہوریت، تعلیم، سائنس اور بین المذاہب مکالمے کے سخت حامی سمجھے جاتے ہیں۔

سنہ 2014 میں ’وائس آف امریکہ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ایک ترک امریکی کاروباری شخص اور گولن کے خاص ترجمان، الپ اسلان دوگان نے گولن کا موازنہ امریکی شہری حقوق کے رہنما، مارٹن لوتھر کنگ جونیئر سے کیا تھا۔

اسلان دوگان کے بقول، ’’شہری حقوق کی تحریک میں تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق کی وکالت کی گئی تھی۔ اِسی طرح، ترکی میں، گولن مساوات اور تمام شہریوں کے لیے، جو اسلام پر عمل پیرا ہیں اور وہ جن کے خلاف تاریخی طور پر امتیاز برتا جاتا ہے، مساوی مواقع کی بات کرتے ہیں۔ ‘‘

اسلان دوگان کے بقول ’’شہری حقوق کی تحریک میں شدت پسندی سے احتراز کیا گیا۔ بالکل اِسی طرح، گولن نے زندگی بھر تشدد پر تنقید کی ہے اور اسے مسترد کیا ہے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ 11 ستمبر 2001ء میں امریکہ کے خلاف حملوں پر گولن نے اسامہ بن لادن کو ’’انتہائی ظالم‘‘ قرار دیا تھا۔

گولن کے امن اور رواداری کے پیغامات کو امریکی شخصیات نے سراہا ہے، جن میں سابق وزرائے خارجہ میڈلین آلبرائٹ اور جیمز بیکر اور سابق امریکی صدر بِل کلنٹن شامل ہیں جنھوں نے گولن فاؤنڈیشن سے خطاب کیا ہے۔

اُن کی ہزمت، یا ترکی زبان میں ’’خدمت‘‘، ادارے میں تھنک ٹینکس، اسکول اور ذرائع ابلاغ کے مختلف ادارے شامل ہیں۔

تاہم، فاؤنڈیشن کے تقریباً 145 چارٹر اسکولوں کے گروپ سے تعلقات پر نگرانی میں اضافہ کیا گیا ہے۔