وہ بے وفا نہیں مگر با وفا بھی نہیں

وہ بے وفا نہیں مگر با وفا بھی نہیں
حسن کی دیوی ہے پر خدا بھی نہیں

میں کتنے آگے ہوں اسکی چاہت میں
میری لگن سے وہ آشنا بھی نہیں

مجبور رسم تھا اور چلا بھی گیا
چاہتے ہوئے اک پل رکا بھی نہیں

وہ بھی لوٹ جائے میں بھی آ جائوں واپس
ممکن نہیں اور اب راستہ بھی نہیں

چراغ اشکوں کے کب تک جلائے گا ساگر
وہ کب آئے گی اب اس کا پتہ بھی نہیں ہے

Break up

Break up

تحریر : شکیل ساگر