خالق کائنات کے انمول تحفے

Mairaj un Nabi

Mairaj un Nabi

تحریر : وقار انساء
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ معراج پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوتین چیزیں تحفے میں دی گئیں پانچ نمازیں سور البقرہ کی آخری دو آیات اور ہر اس شخص کی بخشش جو کسی کو اللہ کا شریک نہ ٹھہرائے رب العالمین نے اپنے حبیب رحمت للعالمیں کو روح الامین کے ذریعے ملاقات کے لئے بلایا اور براق کو سواری کے لئے بھی بھیجا اور زمین آسماں اور لا مکاں کی سیر کروائی گئی-اللہ رب العزت آپ کو اپنی نشانیاں دکھانا چاہتے تھے۔

آپ کا سفر مبارک اسری معراج اور پھرلامکاں کا سفر جس کو اعراج کہا گیا پر مبنی تھا آپ کو اپنے سفر میں مدینہ منورہ کوہ طور بیت اللحم بھی دکھایا گیا اور پھر مسجد اقصی سے انبیا کی امامت کے بعد سات آسمانوں پر انبیا سے ملاقات ہوئی آپ کو جنت دوزخ کے مناظر دکھائے گئے اور پھرہ سدر المنتہی سے آگے جبرئیل امین کے بغیر اللہ کی طرف سے آنے والے سبز ملکوتی تخت زخرف پر سفر کیا -یہاں تک کا سفر سفر محبت و عظمت تھا اس کے بعد آپ مقام قاب قوسین پہنچ گئے مگر حجاب حائل رہا آواز آتی ہے اے حبیب میرے اور قریب ہو جا آپ قریب ہوئے لیکن آپ نے اپنی آنکھوں سے رب کائنات کا دیدار نہ کیا(متفق علیہ) التحیات جو اب نماز کا حضہ ہے اس وقت اللہ اور اس کے حبیب کے مابین مکالمے کا حصہ تھا۔

آپ نیا سلام علیکم نہیں کہا کیونکہ اللہ کی ذات تو بذات خود پیکر سلام ہے – ساری سلامتیوں کا خالق وہ خود ہے جب حضور صلعم اللہ تعالی کی ذاتی اور صفاتی تجلیات اور تمام فیوص وبرکات سمیٹ کر واپس آنے لگے تو اللہ نے آپۖ کو تین تحفے دئیے پہلا تحفہ 50 نمازیں دوسرا سور البقرہ کی آخری دو آیا ت اور توحید پر قائم لوگوں کے لئے بخشش کا وعدہ جب واپسی پرآپ کی ملاقات حضرت موسی سے ہوئی حضرت موسی نے پوچھا اللہ سے کیا ملا ؟آپ نے بتایا50 نمازیں تو انہوں نے کہا اپنے رب کے پاس جائیے اور نمازوں میں کمی کروائیے کیونکہ اپ کی امت یہ نہ کرسکے گی۔

آپ واپس تشریف لے گئے اللہ سیدرخواست کی اللہ نے تخفیف فرمائی پھر واپس ہوئے حضرت موسی نے کہا ابھی بھی زیادہ ہیں کچھ اور کم کروائیے – محتلف روایات ملتی ہیں کہ آپ کئی بار واپس تشریف لے گئے یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئیں حضرت موسی نے کہا ابھی بھی کم کروائیے- کیونکہ میری امت کو دو ملی تھیں تو وہ ان کے ادا کرنے میں بھی پس وپیش کرتے تھے۔

آپ نے فرمایا اب مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے میں اسی میں راضی ہوں اور سر تسلیم خم کرتا ہوں آواز آئی جو میں نے وعدہ کیا تھا (50 نمازوں کے اجر کا ) اسں میں تخفیف نہیں کروں گا آپ کی امت پڑھے گی 5 اور اجر50 کا ملے گا آپۖ کی معراج آسمان پر ہوئی اور مومن کے لئے نمازکا تحفہ زمین پر معراج بنا دیا گیا- پوری شریعت آپ کو زمین پر ملی لیکن نماز آسمان پر ملی – آج امت مسلمہ اپنی اس معراج کو بھولی ہوئی ہے-عبادت میں خشوع وخضوع نہیں بروقت ادائیگی نہیں-فرض نمازوں سے غفلت برت کر اجرو ثواب سے محروم اور اللہ کے غضب کا شکار ہو رہے ہیں-نماز تو مومن کی رب سے ملاقات ہے۔

حضرت علی نے فرمایا تھا کہ جب میرا دل چاہتا ہے میں رب سے باتیں کروں تو میں نماز پڑھتا ہو ں اور جب دل چاہے کہ میرا رب مجھ سے بات کرے تو قرآن پڑھتا ہوں نبی کریمۖ نے جو جنت اور دوزخ کے مناظر دیکھے تو ان میں ایسے لوگ دیکھے جن کے سروں کو پتھروں سے کچلا جا رہا تھا وہ پھر ٹھیک حالت میں ہوتے تو پھر کچلا جاتا آپۖ نے جبرئیل امین سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں فرمایا فرض نمازوں کے وقت جن کے سر بھاری رہتے تھے۔

اللہ کیساتھ شریک نہ ٹھہرانے والوں سے بخشش کا وعدہ بھی ایک تحفہ ملا تھا ہے توحید پر قائم رہنے والوں کے اجرو ثواب بھی بہت ہیں – آپۖ نے جنت میں نہایت خوشبودار اور خوبصورت محل دیکھا جبرائیل امین سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا یہ فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا ہے (بیہقی) مشاطہ اس دور میں سجانے سنوارنے والی عورت کو کہا جاتا تھا – اس مشاطہ کا اللہ کی واحدنیت پر مانند پہاڑ ڈٹ جانے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن وہ فرعون کی بیٹی کے بال سلجھا رہی تھی دفعتا اس کے ھاتھ سے کنگھی چھوٹ کر گر گئی اس نے بسم اللہ کہہ کر اٹھا ئی فرعون کی بیٹی نیپوچھا یہ تم نے کس کا نام لیا؟ بولی اپنے رب کا لڑکی نے کہا مگر وہ تو میرا باپ ہے !! مشاطہ نے کہا میرا اللہ وہی ہے جو مجھے تجھے اور تیرے باپ کو روزی دیتا ہے۔

Allah

Allah

فرعون کی بیٹی نے باپ کو بتا یا اس نے غیض وغضب سے بھر کراسے بلایا اور تانبے کی ایک دیگ میں تیل خوب گرم کروایا-اور کہا
اس دین سے ہٹ جا ورنہ میں تجھے اور تیرے بچوں کو جلا دوں گا-کیونکہ رب میں ہوں مشاطہ بولی میرا رب تو اللہ ہی ہے جو بڑی بزرگی والا ہے
فرعون نے دیگ کے گرم تیل میں اس کے بچے ڈالنے کا حکم دیا باری باری بچے گرم تیل میں ڈالے جا رہے تھے مگر اس کی زبان نے فرعون کو رب نہ کہا – آخر میں جب شیر خوار بچے کو لیا گیا تو اس کا دل دہل گیا قریب تھا کہ ممتا بے بس ہوتی کہ بچہ بول پڑا اماں جان افسوس نہ کرو اور کوئی پس وپیش نہ کرو مشاطہ کو سکون مل گیا اس نے کہا ایک بات پوری کردینا میری فرعون نے کہا میرے ذمے تیرے کچھ حقوق ہیں بول کیا چاہتی ہے؟ کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک جگہ پر ڈال دینا -اور یوں وہ توحید الہی پر قائم رہتے ہوئے جنت میں خوشبودار اور خوبصورت محل کی مالک ہوئی حضور صلو وسلام نے دوزخ میں جن لوگوں کو جس گناہ کی پاداش میں سزا میں مبتلا پایا ان سے عبرت کا سبق لیتے ہوئے نیک عمل اور اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور ان تحفوں کی قدر بھی جو آپ کے وسیلہ جلیلہ سے امت کو نصیب ہوئے جن پر عمل راہ فلاح و نجات ہے۔

تحریر : وقار انساء