امریکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس

Donald Trump

Donald Trump

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
بہت اچھا ہوا کہ میاں نواز شریف نے امریکہ عرب اسلامی سربراہی کانفرنس سے خطاب نہیں کیا۔ ویسے تو ہمیں اِس کانفرنس کے نام کی ہی ”کَکھ” سمجھ نہیں آئی۔ یہ اگر اسلامی کانفرنس تھی تو اِس میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کیا کام۔ کیا ڈرامے باز ٹرمپ مشرف بہ اسلام ہو گیا؟، یا پھر اسلامی ممالک کے سربراہوں نے ” جس کی لاٹھی ، اُس کی بھینس ” کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ٹرمپ کے آگے زانوئے تلمذ تہ کر دیا ؟۔ اگر یہ عرب سربراہ کانفرنس تھی تو پھر اِس میں میاں نواز شریف کا کیا کام ؟۔ اور اگر یہ عالمِ اسلام کے سربراہوں کی کانفرنس تھی تو پھر اِس میں پوری مسلم اُمّہ کے سربراہ کیوں شریک نہیں ہوئے ؟۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف 41 اسلامی ممالک کا اتحاد ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر اِس کانفرنس میں ایران کے خلاف زہر کیوں اُگلا گیا ؟۔ کیا ایران دہشت گرد ملک ہے۔

ویسے اگر ٹرمپ لگے ہاتھ مسلمان ہو بھی جاتا تو پھر بھی اُس کاروباری ذہن رکھنے والے کے لیے سودا مہنگا نہیں تھا کہ وہ سعودی عرب کو 350 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگا کر سیدھا اسرائیل سدھارا ۔ وہی اسرائیل جو عالمِ اسلام کا بدترین دشمن ہے لیکن اب یہ دشمنی شاید دوستی میں بدل جائے کیونکہ یہی ہمارے نئے خلیفة المسلمین ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش بلکہ حکم ہے ۔ اِس کے لیے فی الحال ہمیں ایران کی قربانی تو دینی ہی ہو گی ، باقی اسلامی ممالک ، بار ی باری ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے نیوزچینلز کو اِس سربراہی کانفرنس کی ”کَکھ” سمجھ نہیں آئی ۔ اسی لیے اُنہیںاور تو کچھ سوجھا نہیں البتہ امریکی خاتونِ اول کا ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ کو جھٹکنا اور ٹرمپ کا شرمندہ ہو کر اپنی ٹائی درست کرنا یاد رہا ۔ اب سارے نیوز چینلز بار بار یہی سین دکھا رہے ہیں۔

بھئی! یہ میاں بیوی کا ذاتی معاملہ ہے اور تلخی تو ہر گھر میں ہو ہی جاتی ہے ۔ یہ کون سی بڑی بات ہے جو بار بار میڈیا پر دہرائی جا رہی ہے ۔ ویسے بھی ٹرمپ جیسے ” نظر باز” کے ساتھ اُس کی بیوی کی لڑائی ہونا فطری سا لگتا ہے ۔ لیکن چونکہ ہمارے میڈیا کو تانک جھانک کی عادت ہے ، اِس لیے وہ باز نہیں آتا ۔ ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ میاں نوازشریف نے اگر اِس سربراہی کانفرنس سے خطاب نہیں کیا تو بہت اچھا ہوا کیونکہ اگر وہ خطاب کرتے تو پاکستان کے لیے چیلنجز کے نئے دَر کھُل جاتے ۔ سعودی عرب نے دہشت گردی کے خلاف جو مسلم نیٹو فورس تیار کی ہے ، اِس پر ایران کو شدید تحفظات ہیں جبکہ دوسری طرف سعودی عرب ایران کو اپنی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔

اِس سربراہ کانفرنس سے میاں نوازشریف کا خطاب یہ ثابت کر دیتا کہ پاکستان بھی اِس نیٹو فورس کا حصہ ہے ۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہر پاکستانی کو وزیرِاعظم صاحب کے خطاب نہ کرنے یا نہ کرنے دیئے جانے پر شدید اہانت کا احساس ہوا اور گلی گلی اضطراب پھیلا لیکن اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ پاکستان کی غیر جانبداری کا بھرم رہ گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اِس وقت دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان سینڈوِچ بنا ہوا ہے ۔ سعودی عرب ہمارا دیرینہ دوست اور ہر مشکل کا ساتھی ہے ۔ اِس کے علاوہ عالمِ اسلام کے مقدس ترین مقامات ، مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ کا محافظ بھی ۔ جبکہ ایران ہمارا پڑوسی بھی ہے اور اُس کے ساتھ ہمارا کوئی تنازعہ بھی نہیں ۔ یہی نہیں بلکہ ماضی میں ایران کے ساتھ ہمارے بہترین برادرانہ تعلقات بھی رہے ہیں اور وہ بھی ہمارا بھرپور ساتھ دیتا رہا ہے ۔ اِس لیے اِن دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونا ہمارے لیے ناممکن ہے۔

لَگ بھگ دو برس پہلے پاکستان کو اُس وقت ایک ایسے ہی چیلنج کا سامنا کرنا پڑا جب یمن کی سعودی عرب کے ساتھ جھڑپیں شروع ہوئیں ۔ تب سعودی عرب نے پاکستان کو اپنی افواج بھیجنے کے لیے کہا ۔ وزیرِاعظم صاحب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں لے گئے اور پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر کہا کہ پاکستان کو فریق بننے کی بجائے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اِس لیے پاکستان نے فوج بھیجنے سے معذررت کر لی جس پر سعودی عرب ناراض بھی ہوا ۔ پھرغلط فہمی دور کرنے کی خاطر میاں نوازشریف اور جنرل راحیل شریف نے پہلے سعودی عرب اور بعد ازاں ایران کا دَورہ بھی کیا۔

اِس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے ۔ بھارت کی دشمنی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے اور افغان صدر اشرف غنی بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کے اشاروں پر ناچ رہا ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے ہونے والے زیادہ تر واقعات میںبھارتی خفیہ ایجنسی ”را” کا ہاتھ ہے ۔ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں جو پاکستان میں دہشت گردی کرکے افغانستان بھاگ جاتے ہیں ۔ بس ایک ہی پڑوسی باقی بچا ہے جس کے ساتھ ہمارے نسبتاََ اچھے تعلقات ہیں ۔ اگر وہ بھی ہمارے خلا ف کھڑا ہو گیا تو پھر ہم ہر طرف سے گھیرے میں آ جائیں گے جو کسی بھی صورت میں ملک و قوم کے لیے بہتر نہیں ہو گا ۔ ہمیں غیرجانبدار رہ کر ہی دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا ۔ اگر میاں صاحب اِس سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے تو گویا پاکستان بھی اُس 41 اسلامی ممالک کی فوج کا حصّہ ہوتا جو بظاہر تو دہشت گردی کے خلاف قائم کی گئی ہے لیکن دراصل یہ شیعہ ممالک کے خلاف اتحاد ہے اور امریکہ چاہتا ہی یہ ہے کہ عالمِ اسلام میں فرقہ واریت کا زہر پھیلا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا جائے۔

مدینہ منورہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا کہ پاکستان نے انتہا پسندی کے خلاف بننے والے مرکز کا حصّہ بننے یا نہ بننے کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ اُنہوں نے کہا ” ہم دہشت گردی کو کسی ملک ، خطے یا علاقے سے نہیں جوڑ سکتے۔ دہشت گرد اپنے علاقے اور ملک تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ ہمارا ایک محتاط اندازے کے مطابق 120 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے اور ہم ہزاروں لاشیں اٹھا چکے ہیں ۔ ہم سب کو مل کر اِن دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا ہوگا ”۔ وزیرِ اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف سخت باتیں کیں ۔ تاہم اب وہ مسلمانوں سے تعاون چاہتے ہیں۔

سرتاج عزیز صاحب سے بصد ادب سوال کیا جا سکتا ہے کہ کِس قسم کا تعاون ؟۔ کیا مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوانے کا تعاون ؟۔ کیا ایران کے خلاف محاذ ارائی کا تعاون اورکیا فرقہ واریت کا زہر پھیلانے کا تعاون؟۔ کیا اُس شخص کے ساتھ تعاون کیا جائے جس کی پوری انتخابی مہم ہی اسلام کے خلاف چلی اور جو مسلمانوں کی توہین کرنا اپنا فرضِ عین سمجھتا ہے ۔ کیا سرتاج عزیز صاحب بھول گئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم اسلامی دہشت گردی کو موضوع بنا کر چلائی تھی۔ نہیں جناب ! ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ مضبوط کرکے اِس شیعہ سُنّی جنگ کا حصّہ بننے کی بجائے عالمِ اسلام میں افہام و تفہیم کی فضاقائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر : پروفیسر رفعت مظہر