ملاپ

watch repair

watch repair

علی کی پلکوں پر ٹھہرا ہوا آنسو کچھ دیر تک تو لرزتا اور کانپتا رہا مگر پھر جونہی فاطمہ کی نمکین مسکراہٹ اس سے بہہ کر علی کے دل میں جذب ہوئی تو پھر وہ اپنا وجود اسکی پلکوں پر مزید نہ سمیٹ سکا اور بے بس و مجبور ہو کر اس کے سامنے پڑی ہوئی مرمت طلب گھڑی پر بکھرتا چلا گیا اور پل بھر میں اس میں جڑے ہوئے گھنٹے، منٹ اور سیکنڈ کی سوئیوں کو کچھ اسطرح بھگو گیا کہ وہ اپنے مرکز پر الٹے رخ میں گھومنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھیمے دھیمے گھڑی کی ٹک ٹک علی کی دھڑکنوں کی دھک دھک سے ہم آہنگ ہونے لگیں اور وقت چند سال پیچھے تیرتا چلا گیا۔

چاندنی چوک میں اس رات علی کی آنکھوں میں پورا چاند اتر آیا تھا جس رات فاطمہ اسکی دکان پر اپنی پرانی گھڑی کی مرمت کی خاطر آئی تھی۔ سیاہ اوڑھنی میں ٹکے ہوئے گوٹے کناروں کے سامنے فاطمہ کے چاند جیسے مکھڑے کو گھیرے ہوئے آسمان کے تاروں سے زیادہ اترا رہے تھے۔ فاطمہ کے گلابی رخسار، اسکی آوارہ زلف کی چھیڑخانی سے ڈوبتے افق سے زیادہ دہک رہے تھے۔ فاطمہ کے کالے کالے نینوں میں اترتا علی کا عکس بے اختیار اسکے دل کی دھڑکن بن کر علی کے حلق میں دھڑک رہا تھا۔

فاطمہ کے گالوں کے ڈمپل بھی علی کی بے بس صورت کو دیکھ کر بے ساختہ مسکرا رہے تھے کہ اچانک فاطمہ نے شوخ نگاہوں سے علی کی کھوئی کھوئی آنکھوں کے سامنے اپنی چوڑیوں بھری کلائی ہلا کر کہا تھا۔ ” سنیے ذرا ہماری گھڑی ٹھیک کر دیجیے، یہ چلتے چلتے رک جاتی ہے” اور پھر علی کے ایک لفظ جی، کو اسکے دل سے ہونٹوں تک آنے میں صدیوں کا فاصلہ طے کرنا پڑ گیا تھا۔

اسے لمحے بھر کیلئے یوں لگا تھا جیسے اسکے دل کی دھڑکنیں جو فاطمہ کی گھڑی کی رکی ہوئی سوئیوں سے ملتے ہی رک گئی تھیں، اسکی چوڑیوں کی جھنکار سن کر گہری نیند سے یکایک جاگ کر سرپٹ دوڑنے لگی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاطمہ کے دکان سے جاتے ہی علی دیر تک آسمان پر چاند کو تکتا رہا اور کچھ دیر تک تو اندر ہی اندر اپنی بیچارگی پر روتا رہا تھا مگر
پھر جونہی مدینہ مسجد کی محرابوں سے نکل کر عشاء کی اذان کی آواز جو علی کی دکان میں

pray

pray

گونجنے لگی تو علی نے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر کچھ اسطرح صدق دل سے اپنے رب کے حضور دعا کی کہ اسکی دعا قبولیت کی اعلیٰ منزلوں کو چھوتے ہوئے فاطمہ کے دل میں علی کا پیار بن کر دھڑکنے لگی اور فاطمہ کو بھی گھر جاتے جاتے کچھ لمحوں میں یوں لگا جیسے آج وہ گھڑی کیساتھ ساتھ اپنی زندگی کا سارا وقت بھی علی کو دے آئی ہے۔

پھر علی نے دونوں پلکوں کو دھیمے سے پپوٹوں پر بھینچا اور اپنی بھگی ہوئی پلکوں کو جھپک کر میز پر پڑی فاطمہ کی گھڑی کو تکنے لگا جس کی گھنٹے، منٹ اور سیکنڈوں کی سوئیاں واپس اپنے مدار کے اردگرد گھوم کر اپنی اصلی حالت کیطرف لوٹ گئی تھیں۔ علی نے چار منہ کے پیچ کس کے سرے کو آہستگی سے مرکزی پیچ میں پھنسایا اور اسکرو کو دھیمے دھیمے الٹے رخ پر گھمانے لگا۔ کچھ ہی دیر میں گھڑی کی سویاں متحرک ہونے لگی مگر باوجود کوشش کے وہ اپنے مرکز پر گھومنے کے بجائے بس چپ چاپ ایکدوسرے کیساتھ ساتھ کانپتی رہی۔

علی کو یوں لگا جیسے وقت، اپنی تمام تر توانائیاں خرچ کر کے بھی آگے بڑھنے سے قاصر ہے۔

علی نے پپوٹوں کو دوبارہ بھینچ کر پتلیوں کو سمیٹا اور گھڑی کی کانپتی ہوئی سوئیوں کے پیچھے اپنے اور فاطمہ کے دھندلے سے امیج کو دیکھنے لگا جو بڑی ہی عاجزی سے دونوں ہاتھ باندھے سارے سنسار سے اپنے ملن کی بھیک مانگ رہے تھے۔

چاندنی چوک میں اس رات علی کی دکان پر اسکا اور فاطمہ اور کا سارا کنبہ جمع تھا۔ علی مجرموں کیطرح سر جھکائے زمین کو تک رہا تھا اور فاطمہ سرخ انگارہ آنکھوں سے آسمان کو دیکھ رہی تھی۔ غروب مغرب کا وقت مدینہ مسجد کی محرابوں کی ختم ہوتی ہوئی سنی اذان کی گونج اور امام بارگاہ سے شروع ہونیوالی شیعہ اذان کی آواز کے درمیانے وقفے میں پھنسا ہوا کانپ رہا تھا۔ علی اور فاطمہ کے باپ بیک وقت ایکدوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے علی و فاطمہ کی طرف کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہے تھے۔ سنی شیعہ فرقوں کا یہ فرق محض اذانوں کی گونجوں کے درمیان کے منٹ اور سیکنڈ کا فرق نہیں ہے بلکہ صدیوں کے فاصلے کا فرق ہے۔ علی نے بھرائی آنکھوں کیساتھ زمین سے نظریں اٹھا کر اپنی گھڑی پر ڈالی مگر پتلیوں کے سامنے آئے آنسوؤں کی وجہ سے اسے یوں لگا جیسے گھڑی کی تینوں سوئیاں اسکے آنسوؤں میں تیر کر صدیوں پرانے رکے ہوئے وقت پر آ کر ٹھہر گئی ہیں۔

پھر علی نے جونہی گھڑی سے نظریں اٹھا کر آس پاس دیکھا تو اسے لگا جیسے چاندنی چوک کا پررونق بازار اچانک کچی اینٹوں کے بنے چبوتوں اور دیواروں میں ڈھل گیا ہو
جس میں چاروں جانب عرب کی ریگستانی دھول اڑ رہی ہو اور اسکے کنبہ کے سارے لوگ لمبی لمبی عبائیں پہنے ایکدوسرے پر تلواریں تانے خونخوار نظروں سے اسے اور ایکدوسرے کو گھور رہے ہیں۔ علی کو یوں لگا جیسے چاندنی چوک اچانک چودہ سو سال پرانے مدینہ کے بازار میں بدل گیا ہو اور اسکی دکان سقیفہ بنی ساعدہ والی وہ بیٹھک بن گئی ہو جہاں اسکی شادی کی بات کی جگہ شائد خلافت کے حصول کا پہلا جھگڑا ہونیوالا ہے۔

علی نے ڈوبتے دل کیساتھ اپنی دونوں آنکھوں سے آنسو پونچھ دیے اور ایکبار پھر اپنی گھڑی کیطرف دیکھا مگر اسکی گھڑی کی سوئیاں ابھی بھی اسی جگہ ٹھہری ہوئی تھیں۔ علی نے بے بس نگاہوں سے اپنے کنبہ کے لوگوں کو دیکھا اور پھر فاطمہ کیطرف ایک ڈوبتی امید سے نظر ڈالی۔ اچانک فاطمہ کے دل میں نہ جانے کیا آئی کہ وہ اپنی جگہ سے دھیرے سے اٹھی اور میز پر دھری ہوئی اپنی رکی ہوئی گھڑی اٹھا کر لائی اور علی کی گود میں ڈال دی۔

علی نے پلک جھپک کر گھڑی کے ڈائل پر نظر ڈالی اور حیران نگاہوں سے گھنٹے، منٹ اور سیکنڈوں کی سوئیوں کو دیکھنے لگا جس کا رکا ہوا وقت اسکی گھڑی کے ٹھہرے ہوئے وقت سے پہلے کا تھا۔ اچانک علی اپنی جگہ سے اٹھا اور فاطمہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے اور فاطمہ کے کنبوں سے مخاطب ہو کر کہا۔

malaap

malaap

تم لوگوں کو پتہ ہے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کیوں کی تھی؟ تاکہ انکی امت کے درمیان کبھی بھی دراڑ نہ آئے۔ کیا تم لوگ انکی خواہش پوری نہ کرو گے؟

تحریر: ڈاکٹر بلند اقبال