فتح مکہ

Fatah Makkah

Fatah Makkah

تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
ہوائیں دم بخود تھیں ‘فضائیں حیران تھیں ‘چشمِ فلک حیرت سے پلک جھپکنا بھول چکی تھی ‘نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان ‘سردار الانبیاء ‘محبوب خدا’ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 20 رمضان کی صبح اسلامی لشکر کے ساتھ مکہ کہ طرف مارچ کیا۔ سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حضرت عباس ابو سفیان کو اونچے ٹیلے پر لے گئے جہاں سے اسلامی لشکر کے دستے شہر میں داخل ہوئے دکھائی دے رہے تھے ۔ اِس میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ سردار ِ قریش ابو سفیان اہلِ مکہ کو بتا سکے کہ اب اسلامی لشکر کا مقابلہ ممکن نہیںہے ‘علم بردار حضرت سعد بن عبادہ کا دستہ گزرا تو انہوں نے جوش میں نعرہ بلند کیا آج تو گھمسان کی جنگ کا دن ہے ‘رحمتِ مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ چلا تو اِس فخریہ نعرے کو ناپسند کیا اور دستے کی سرداری کا علم حضرت سعد بن عبادہ سے لے کر اُس کے بیٹے قیس بن سعد کے حوالے کیا اور عجز سے کہا آج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے اور پھر جب شہنشا ہِ دو عالم ۖ کی اونٹنی مکہ شہر میں داخل ہو ئی تو اللہ تعالی کے بخشے ہو ئے اعزاز ِ فتح پر فاتح کا سر عجز اور شکرانے پر جھکا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک اتنا زیادہ جھکا ہوا تھی کہ داڑھی مبارک کے بال مبارک کجاوے کی لکڑی کو چھو رہے تھے اور زبان مبارک پر سورة فتح کی آیا ت مبارکہ جاری تھیں ۔ رسول اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لشکر کی ترتیب یوں فرمائی تھیں حضرت خالد بن ولید کو داہنے پہلو پر رکھا انہیں حکم دیا کہ و ہ مکہ کہ زیریں حصے سے داخل ہوں اور اگر قریش میں سے کوئی آڑے آئے تو اُس کو زِیر کرتے ہوئے صفا پر آکر ملیں حضرت زبیر بن عوام بائیں پہلو پر تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ مکے کے بالائی حصے یعنی کداسے داخل ہوں اور حجون میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا گاڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد تک وہیں ٹہرے رہیں حضرت ابو عبیدہ پیادے پر مقرر تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ بطن وادی کا راستہ پکڑیں یہاں تک کہ مکے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے اتریں ‘حضرت خالد بن ویلد مکہ کے گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے کوہ ِ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملے ‘ادھر حضرت زبیر نے آگے بڑھ کر حجون میں مسجد فتح کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جھنڈا گاڑ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے قُبہّ نصب کیا پھر وہیں ٹہرے رہے ‘یہاں تک کہ رحمتِ دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اِس کے بعد فخرِ دو عالم یہاں سے آگے بڑھے ‘آگے پیچھے چاروں طرف موجود انصار و مہاجرین کے جلومیں مسجدِ حرام کے اندر تشریف لائے آگے بڑھ کر حجراسود کو چوما اور بیت اللہ کا طواف کیا اِس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں ایک کمان تھی ‘بیت اللہ کے گرد اور اس کی چھت پر تین سو ساٹھ بت تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی کمان سے ان بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے ترجمہ :حق آگیا اور باطل چلا گیا باطل جانے والی چیز ہے۔ حق آگیا اور باطل کی چلت پھرت ختم ہو گئی ۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ٹھوکر سے بت چہروں کے بل گرتے جا تے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طواف اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر فرمایا اور حالتِ احرام میں نہ ہونے کی وجہ سے صرف طواف پر ہی اکتفا کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر خانہ کعبہ کھولا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر داخل ہو ئے تو تصویریں نظر آئیں جن میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تصویریں بھی تھیں اُن کی تصویروں کے ہاتھ میں فال گیری کے تیر تھے رحمتِ دو جہاں ۖ نے یہ منظر دیکھا تو فرمایا اللہ اِن مشرکین کو ہلاک کرے خدا کی قسم اِن دونو ں پیغمبروں نے کبھی بھی فال کے تیر استعمال نہیں کئے ‘آپ ۖ نے خانہ کعبہ کے اندر بنی ہوئی لکڑی کی کبوتری بھی دیکھی جسے اپنے دستے مبارک سے توڑ دیا اور تما م تصویریں آپ ۖ کے حکم سے مٹا دی گئیں ۔

Khana kaba

Khana kaba

ملائکہ کی تصویروں پر نظر ڈالی تو فرمایا غضب اللہ کا فرشتے نہ تو مرد ہیں اور نہ ہی عورت ان کو مٹا دینے کا حکم فرمایا پھر جب کعبہ کی چھت پر نظر ڈالی تو ہر طرف بت ہی بت نظر آئے جنہیں دیوار کے ساتھ چونے کے ساتھ لگا یا گیا تھا ‘ہبل کعبہ کے بلکل وسط میں رکھ اہوا تھا آپ ۖ اشارہ فرماتے جاتے اور بت خود ہی گرتے جاتے ۔ رسول دو جہاں ۖ نے بیس سال جس مقصد کی دعوت دی تھی آج وہ دن آگیا تھا آج جھوٹے معبود وں سے خانہ کعبہ کو پاک و صاف کر دیا گیا ۔ تطہیرِ کعبہ کے فوراً بعد حضور اقدس ۖ نے حضرت بلال کو کعبہ کی چھت پر چڑھ کر آذان دینے کا حکم دیا اور پھر مکہ کے گلی کوچے اور گھاٹیاں سر مدی نور میں نہائی ہو ئی گونج سے چھلکنے لگے ۔ حضرت بلال نے اذان دی پھر رحمتِ دو جہاں ۖ کی امامت میں مسلمانوں نے نماز ادا کی ۔ نماز کے بعد بیت اللہ کے اندرونی حصے کا چکر لگا یا تما م گوشوں میں توحید کے کلمات کہے ۔

قریش مسجدِ حرام میں گردنیں جھکائے کھڑے تھے مسجدِ حرام کھچا کھچ بھر چکی تھی قریش مکہ کو انتظار تھا کہ آپ ۖ ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں ‘آپ ۖ خانہ کعبہ کے دروازے پر آئے ‘نیچے قریش کھڑے تھے سرور دو جہاں پھر قریش سے مخاطب ہو ئے اللہ کے سوا کو ئی معبود نہیں ‘وہ تنہا ہے اس کا کو ئی شریک نہیں اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی ۔ اے قریش کے لوگوں اللہ نے تم سے جہالت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کر دیا سارے لوگ آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ ترجمہ : اے لوگوں ہم نے تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمھیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو تم میں اللہ کے نزدیک سب سے باعزت وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہو ‘بے شک اللہ جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے ۔ اِس کے بعد آپ ۖ نے فرمایا قریش کے لوگوں تمھارا کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کر نے والا ہوں تو قریش مکہ بولے آپ ۖ کریم بھا ئی ہیں اور نیک بھائی کے بیٹے ہیں تو آپ ۖ نے فرمایا میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی آج تم پر کو ئی سر زنش نہیں جا ئو تم آزاد ہو ۔ مغرب جو پیارے آقا ۖ پر انتہا پسندی کا الزام لگا تا ہے اُس کے لیے ذیل کا واقعہ سبق آموز ہے۔

دعوت اسلام کے ابتدائی دنوں کی بات ہے ایک دن رحمتِ دو جہاں ۖ کا دل کیا کہ خانہ کعبہ کے اندر جا کر عبادت کریں آپ ۖ کعبہ کے چابی بردار عثمان بن طلحہ کے پاس گئے اور تھوڑی دیر کے لیے چابی مانگی تو عثمان نے انکار کر دیا تو حضور اقدس ۖ نے فرمایا عثمان ایک دن آئے گا جب یہ چابیاں میرے پاس ہو نگیں اور میں جسے چاہوں گا دوں گا تو عثمان نے قہقہ لگایا اور بولا کیا اُس دن قریش مر جا ئیں گے ، تو نبی کریم ۖ نے فرمایا نہیں وہ تو قریش کی سچی عزت کا دن ہو گا اور آج قریش سر جھکائے کھڑے تھے’ رسول اقدس ۖ کی آواز ابھرتی ہے عثمان بن طلحہ کہاں ہے تو خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزتا بوڑھا سامنے آیا اُس کا چہرہ خوف سے فق تھا آپ ۖ نے فرمایا عثمان وہ دن یاد ہے جب میںنے تم سے چابی مانگی تھی عثمان سر جھکائے کھڑا تھا بولا جی حضور ۖ ایک ایک بات یاد ہے ۔ چابیاں حضور ۖ کے ہاتھ میں تھیں ‘حضرت علی سمیت معتبر صحابہ ان چابیوں کا تقاضہ کر چکے تھے رحمتِ دو جہاں ۖ نے عثمان کو پاس بلایا چابیاں اُس کے ہاتھ پر رکھیں اور فرمایا جائو یہ چابیاں ہمیشہ تم اور تمھارے خاندان کے پاس رہیں گی یہ اعزاز ِ خاص آج بھی عثمان بن طلحہ کے خاندان کے پا س ہے ۔

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

Professor Mohammad Abdullah Bhatti

تحریر:پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
help@noorekhuda.org
03004352956

Fatah Makkah

Fatah Makkah