موسم

Sky

Sky

تحریر : شاہد شکیل
ایک محاورہ ہے کہ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے لیکن یہ سننے میں کبھی نہیں آیا کہ بدلتی ہے زمیں رنگ کیسے کیسے ،آسمان رنگ بدلے یا نہ بدلے لیکن جب سے کائنات وجود میں آئی ہے تب سے زمین کئی بار تبدیل ہوئی ،جغرافیائی لحاظ سے دنیا کے ہر خطے میں کئی بار موسم تبدیل ہوا اور اس سیارے پر بسنے والے ہر ذی روح کی کئی بار قدرتی آفات نے جسم سے روح نچوڑ لی جس کی مثال خاص طور پر زلزلوں سے دی جا سکتی ہے ایسی آفات نے کئی بار زمین پر تبدیلیاں کیں اور بدستور جاری ہیں،قابل غور بات یہ ہے کہ صدیوں سے جاری ان تبدیلیوں میں کسی قوم ،خطے ،ریاست یا مذاہب کے عوامل کا کوئی عمل دخل نہیں یہ محض خام خیالی ہے کہ جیسے عام طور پر کہا جاتا ہے۔

زلزلوں یا سیلابوں کا آنا ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے کیونکہ اگر کسی قوم کے اعمال کو مدنظر رکھا جائے تو دنیا کے کئی خطوں میں ایسی قومیں بھی آباد ہیں جن کا سارا دارومدار ہی گناہوں سے وابستہ ہے یا دیگر منفی عوامل پر مبنی ہے اور باوجود تباہ ہونے کے پرسکون زندگی بسر کرتی ہیں ۔زمین ایک ایسا سیارہ ہے جہاں کسی بھی وقت کسی بھی خطے میں انسانوں کے کسی بھی اعمال سے نہیں بلکہ قدرتی طور پر نیچرل ڈیزیسٹر رونما ہو سکتی ہیں اگر انسانوں کے اچھے برے اعمال کی ہی بات کی جائے تو جاپان اور انڈونیشیا ایسے ممالک ہیں جہاں ہر لمحے زلزلے کے یا سمندری طوفان کے خطرات ہیں۔

زمین اپنی حرکات کے تحت موسم میں تبدیلیاں لاتی ہے اور انہیں تبدیلیوں کے سبب کئی خطوں میں غربت ، بھوک اور بے روزگاری پیدا ہوتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ کئی ممالک کے نام نہاد سیاسی لیڈرز قدرتی آفات کے علاوہ سیاسی آفات سے ریاست کو تباہ کرتے ہیں تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔جغرافیائی مطالعوں کے مطابق ال نینو نے دنیا بھر میں اپنے اثرات ظاہر کرنا شروع کر دئے ہیں جس کے سبب دنیا بھر میں سو میلین سے زائد افرادکو خوراک اور پانی کی کمی ہونے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے اور متوقع طور پر اموات ہو سکتی ہیں۔

Poverty

Poverty

خاص طور پر افریقا میں بھوک کی وجہ سے کئی سالوں سے لاکھوں افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں اور اضافہ ہو رہا ہے ۔مونسٹر ال نینو آج کل پیسیفک پر قابض ہے ، تباہی کی رفتار قدرے دھیمی ہے لیکن دنیا بھر میں موسمیاتی نظام کو متاثر کرنے کی تیاری کر چکا ہے ال نینو نے ایکسٹریم خشک سالی ، سیلاب اور طوفانوں سے فصلوں کی تباہی سے آغاز کیا ہے جس کا انجام بھوک اور پیاس سے موت ہو سکتا ہے ۔ ال نینو کی وجہ سے ارجنٹائنا میں آب و ہوا اس قدر تبدیل ہو چکی ہے کہ سیلابوں کو ریکارڈ تباہی کا سبب شمار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے پورے ملک کے کئی علاقے زیر آب رہنے لگے ہیں اور زہریلے سانپوں کی بہتات ہے۔

عوام کے تحفظ کے لئے حکومت نے کئی علاقوں اور ساحلوں کو خطرناک قرار دیتے ہوئے مکمل طور پر بند کر دیا ہے کئی علاقوں سے بیس ہزار سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ،پیرا گوائے،یوراگوائے اور برازیل میں سیلابوں کے خوف سے تقریباً اسی ہزار افراد اپنے علاقے چھوڑ چکے ہیں ،پیرو میں عوام کے تحفظ کے لئے آرمی نے کئی علاقوں کا نظام سنبھال لیا ہے۔

یونائیٹڈ نیشن کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے ماہرین کا کہنا ہے غذائی قلت سے دنیا بھر میں انچاس میلین افراد دوچار ہو چکے ہیں اور افریقا کے کئی ممالک میں تباہ کن خشک سالی غالب آچکی ہے ،دس میلین سے زائد افراد ایتھوپیا میں خوراک کی کمی کا شکار ہیں اور خاص طور پر حاملہ خواتین اور بچوں کی حالت ناقابل برداشت ہے بچے نہایت کمزور اور لاغر پیدا ہو رہے ہیں غذا نہ ہونے کی وجہ سے موت میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Drought

Drought

ایک اندازے کے مطابق آنے والے چھ ماہ میں مناسب خوارک نہ ملنے پر ساڑھے تین لاکھ خواتین متاثر ہو سکتی ہیں،خشک سالی کے سبب کاشتکاری ناممکن ہے ، موزمبیق ، زیمبیا، ملاوی ، جنوبی افریقا،بوٹسوانا ،زمبابوے اور مڈغاسکر ال نینو کی زد میں ہیں ۔نیچر کلائیمیٹ چینج کے ماہرین کا کہنا ہے ال نینو تقریباً ہر اٹھائیس سال بعد شدید موسمیاتی تبدیلی لاتا ہے اور اس صدی میں ممکنہ طور پر گیسوں کے اخراج میں اضافے سے موسم مزید تبدیل ہوسکتا ہے لیکن اگر افریقا میں انتظام نہ کیا گیا تو آنے والی صدی میں برآعظم افریقا کا زمین سے مکمل طور پر ختم ہو جانے کا امکان ہے۔

ال نینو کا شکار دنیا کے دیگر ممالک بھی ہیں مثلاً چین اور آسٹریلیا بھی سیلابوں کی زد میں ہیں اور مزید قدرتی آفات کا شکار ہو سکتے ہیں ، فلپائن میں فشنگ بزنس شدید متاثر ہو رہا ہے کیونکہ مچھلیاں گرمی براشت نہیں کر سکتیں اور سمندر میں ہی تڑپ تڑپ کر مر رہی ہیں۔

گلوبل وارمنگ کسی ایک خطے کا نہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک ایسے مسئلے کا آغاز ہو چکا ہے جس سے آنے والے سالوں میں کئی ممالک سیلابوں، زلزلوں، طوفانوں اور ٹورنیڈو وغیرہ کا شکار ہو سکتے ہیں ۔زمین کی قدرتی طور پر حرکات کے علاوہ انسانوں کی بھی لاپرواہی اور غلطیوں کے نتائج ہیں۔

Shahid Sakil

Shahid Sakil

تحریر : شاہد شکیل

Earthquake

Earthquake