خوش آمدید ۔حصہ دوم۔

Rights for Women

Rights for Women

تحریر : شاہد شکیل
جرنلسٹ کا کہنا ہے ہم تمام مردوں کی توجہ اس خاص نکتے پردلانا چاہتے ہیں کہ جرمنی میں مرد اور عورت کے مساوی حقوق ہیں اور یہ حقوق سکول کی ابتدائی تعلیم سے ہی شروع ہو جاتے ہیں جہاں نہ صرف لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی کلاس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ لڑکیوں کو تیراکی بھی سکھائی جاتی ہے اور سکول یا کلاس کے ہمراہ کئی دنوں تک گھر سے باہر بھی رہنا پڑتا ہے علاوہ ازیں اگر آپ کی بیٹی یا بہن بلوغت کی عمر میں اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ دوستی یا رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا چاہتی ہے جو کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھتا ہے تو یہ تمام باتیں جرائم میں شمار نہیں ہوتیں۔

آپ یا آپ کے عزیز و اقارب کو کوئی حق نہیں کہ بالغ بیٹیوں یا بہنوں پر زور زبردستی کریں، کسی قسم کا دباؤ ڈالیں ، روک تھام یا تشدد کریں اور انکے مستقبل یا زندگی کی راہوں میں روکاوٹ ڈالیںانہیں اپنی مرضی سے زندگی جینے اور خودمختاری کا پورا حق حاصل ہے،انکی راہوں میں روکاوٹ ڈالنے یا تشدد کرنے کو جرم میں شمار کیا جاتا ہے اور جیل کی سزا بھی ہوسکتی ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ وہ سب کچھ بھول جائیں جو اپنے ملک میں غیرت یا ذلت کے نام پر سمجھ کر کرتے رہے ہیں یہ سب عوامل جرائم میں شمار کئے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف ہم جنس پرستی جائز ہے اس کیلئے کسی کو جیل کی سزا نہیں ہوتی۔

Regulation

Regulation

اگر آپ کو یہاں کے قوانین پر اعتراض ہو اور آپ امن و آزادی کے ساتھ رہنے کی بجائے تشدد آمیز رویہ اختیار رکریں گے اور قانون توڑنے یا رد کرنے کی کوشش کریں گے تو بڑے شوق سے اپنے ممالک واپس جا سکتے ہیں کیونکہ جرمنی نہیں چاہتا اس ریاست میں کسی دوسری ریاست کے قوانین کا نفاذ ہواور جرمن قوانین مسترد کئے جائیں، یہاں ہم افسوس سے کہیں گے کہ ہم رواداری قائم نہیں کر سکتے اور کسی ایسی غلطی کرنے سے گریز کریں گے جو بعد میں پورے معاشرے کو مسائل سے دوچار کر دے کیونکہ جرمنی نے انیس سو انچاس کے بعد کئی خوفناک دھچکوں کے بعد اصلاحات کیں اور عظیم قربانیاں دینے کے بعد ایک مقام حاصل کیا ہے۔

ہم کئی سالوں اور قربانیوں سے پایا مقام کھونا نہیں چاہتے بدیگر الفاظ اگر کوئی ہمارے قوانین کی عزت اور پاسداری نہیں کرے گا یا سخت اور گھمبیر لگتے ہیں تو وہ اپنے گھر واپس جا سکتے ہیں،یقینا یہ سب کیلئے ایک تکلیف دہ عمل ہو گا کیونکہ تارکین وطن اپنی ثقافت اور عادات و اطوار کے تحت یہاں زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں تو کئی مسائل کا سامنا کرنا ہوگا مثلاً قوانین کی خلاف ورزی اور حدود تجاوز کی جائیں گی تو کسی رعایت کی توقع نہ رکھی جائے ، تارکین وطن کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ جرمنی کوئی انجیلا میرکل پوسٹر نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے خوش آمدید کلچر ،مہمان نوازی اور روداری کو کمزوری سمجھا جائے آعلیٰ عہدوں پر فائز چند افراد نے آپ کو ریلوے سٹیشنز یا سرحدوں پر خوش آمدید کہا اور تصاویر اتروائیں تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ آپ اپنی مان مانی کر سکیں گے۔

German

German

ہمیں آج بھی وہ دن یاد ہے جب جرمن ،جرمنوں کے پاس آئے اور خوشی کے آنسو روئے ہم نہیں چاہتے کہ ایک بار پھر کوئی روئے،ہم نہیں چاہتے کہ آپ محض اس وجہ سے دوبارہ اپنے ملک واپس جائیں کہ جرمن قوانین سخت ہیں ہمیں یقین ہے کہ آپ رفتہ رفتہ سب کچھ جان جائیں گے کہ قوانین ہی جرمنی کی ترقی کا راز ہیں اور سب پر لاگو ہوتے ہیں وہ جرمن ہو یا دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو،ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چند ممالک میں اسلام کا نام بدنام کیا جا رہا ہے اور چند جنونی تنظیمیں بے گناہ اور بے ضرر افراد کو ایک ایسی جنگ میں دھکیلنا چاہتی ہیں جہاں موت کے سوا کچھ نہیں اور یہی وجوہات ہیں کہ آپ نے اپنی زمین و ملک سے فرار ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔

،ہم سب تارکین وطن سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ہر قسم کی امداد کیلئے تیار ہیں،طویل انویسٹی گیشن کی بجائے آپ کو ہر نکات اور قوانین سے تفصیلاً آگاہ کیا جائے گا ہم امید رکھتے ہیں کہ دوطرفہ اعتماد اور بھروسے کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام کارروائی بہت جلد مکمل کی جائے گی آپ پر لازم ہے کہ قوانین کا احترام کریں ، ریسپیکٹ اور اخلاق کے دائرے میں رہ کر تمام مشکلات سے متعلقہ اداروں کو آگاہ کریں۔ خوش آمدید کلچر سے منسلک ثقافت اور روابط نہایت اہم ہیں ،ہم نہیں جانتے کہ کب ریاستوں میں امن ہو گا کہ تارکین وطن دوبارہ اپنی زمین اور پر امن ملک میں جا بسیں شاید کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔

لیکن جب تک آپ کا قیام جرمنی جیسے پر امن ملک میں ہے آپ کو بھی پر امن طریقے سے رہنا ہو گااس لئے آپ سے گزارش ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس سے قانون حرکت میں آئے اور آپ کو ملک بدر کر دیا جائے ہماری کوشش ہو گی کہ کوئی جرمن بھی ایسا اقدام نہ کرے جس سے تارکین وطن کے دلوں میں ہمارے خلاف نفرت پیدا ہو اور وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جائیںہم چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو ہمارے کلچر میں رچ بس جائیں تاکہ دوریاں اور فاصلے ختم ہوں لیکن اس کیلئے یا بدیگر الفاظ کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے اور ایمانداری یہاں کا پہلا جز ہے ،دورغ گوئی سے شدید نفرت کی جاتی ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں جرمنی میں تبدیلی آئے ہم اس بات کے قائل ہیں کہ تمام انسان ایک دوسرے کیساتھ پیار و محبت سے مل جل کر رہیں اور قوانین پر عمل کرنے سے کامیابی کی منزلیں طے کرتے رہیں۔

Shahid Sakil

Shahid Sakil

تحریر : شاہد شکیل