سفید پوش اب ہو جائیں روپوش!

Budget

Budget

تحریر: وقارالنساء
ہر سال جون کا مہینہ ایک امتحان کا مہینہ ہوتا ہے جس کے آنے سے پہلے اس کی ہولناکی کا تصور غریب سے رہی سہی زندگی کی امید بھی چھین لیتا ہے مہنگائی کی چکی کے پاٹوں میں پستے لوگ بجٹ آنے سے پہلے ہی اس افتا د سے پناہ مانگنے لگتے ہیں سارا سال مہنگائی اور بیروزگاری کا رونا رو رو کر تھکے ہوئے عوام کو بجٹ کا ایسا الیکٹرک شاک لگایا جاتا ہے کہ انہیں ہارٹ اٹیک آجائے جو ہارٹ اٹیک سے بچ نکلیں ان کی آنکھیں چیزوں کی قیمتیں سن کر حیرت اور پریشانی سے نکل کرباہر آجاتی ہیں بجٹ کے سلسلے میں ہونے والی مہنگائی اور ٹیکس ان کے دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگتے ہیں –

ایسے میں غریب عوام کوصدمے سے سکتہ ہو جائے تو وہ تو اس جھنجھٹ سے آزاد ہوا –بہتوں کو ہائی بلڈ پریشر سے نروس بريک ڈاؤن ہو جائے –اپنے گھر کی گاڑی کھیچنے والے کفیل اعصابی تناؤ کا شکار ہو کرآگے کی راہ لیں تو دیکھیے بجٹ نےعوام کو کتنی ہی پریشانیوں سے نجات دے دی کتنے سفید پوشوں کو دنیا سے روپوش کر دیا گویا نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری بجٹ کو پیش کر کے گورنمنٹ نے اپنی ترجیحات کو واضع کر ديا تعمیرات کو اولین ترجیح دی گئی جبکہ تعلیم کو کسی کھاتے میں نہ لایا گیا- جب کہ صحت اور تعلیم روزگارکو مقدم رکھنا چاہیے تھا- تعلیمی اداروں کی حالت پہلے ہی ناگفتہ بہ ہے ملک کی اعلی یونیورسٹیاں ضروری سامان سے آزاد ہیں ايسے میں طالبعلم کیوں کر تعلیم حاصل کر سکیں گے ؟

اس سے قبل بھی سکولوں کالجوں کے نتائج آپ کے سامنے ہیں جب طالبعلموں کو لیب کا سامان نہ ملے گا کمپیوٹر میسر نہ ہوں گے وہ بہتر طریقے سے پڑھ نہ سکیں گے تو پھر نقل بھی ہو گی جعلی ڈگریاں بھی ہوں گی اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے استاد اور اعلی عہدے دار ہوں گےاورآئندہ نسل بھی غلط طریقے استعمال کر کے آئے گی پھر کہاں سے قابل لوگ کہیں نظر آئیں گے ؟ اڑھائی کروڑ بچے اس وقت سکولوں میں نہیں جارہے جن ميں سے آدھی تعداد پنجاب میں ہے یہ ھماری اولین ترجیح ہونی چاہیے –کہ تعلیم کو آسان بنايا جائے اس کے لئے بہتر حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ نسلیں سنوریں اور کل کو آپ کے ملک میں پڑھے لکھے اور قابل لوگ نظر آئیں-سکولوں کالجوں اور یونیورسٹی کوجدید سہولیات سے آراستہ کيا جائے تاکہ طالبعلم فائدہ اٹھا سکیں

Hospitals

Hospitals

ہسپتالوں کی حالت ابتر ہے وینٹی لیٹر اور ڈائیلسز مشینیں خراب ہیں –مریض کیا کرے گا ؟ یہ سہولیات دینا اور اس مد میں خرچ کو کيا ترجیح نہیں دینی چاہیے ؟ آج غریب مہنگائی کے ھاتھوں مر رہا ہے دوا اور علاج کی عدم دستیابی خوراک کی کمی انہیں موت سے قریب تر لا رہی ہے ایسے میں ہسپتال انہیں علاج دینے سے قاصر ہیں تو نتیجہ اس دنیا سے رخت سفر باندھنا ہی ہو گا ملکی ترقی کے لئے علاج معالجے کی بہتر سہوليات صحتمند انسانی معاشرے کے لئے ناگزیر ہے اس کے لئے ھسپتالوں پر خرچ کیا جاتا تعلیم پر کيا جاتا اوربنیادی ضروریات زندگی کو سستا کیا جاتا تاکہ عوام اپنے پیٹ کا دوزخ تو بھر سکیں

میٹرو بس کے منصوبے پر اتنا خرچ کیوں؟ جب کہ ریاست کا پہلا فرض اپنی شہریوں کوروزگار دینا ہے تاکہ لوگ بھوکے نہ مریں اس مہنگائی کے دور میں ان بسوں میں سفر امراء ہی کر سکتے ہیں عام آدمی کی پہنچ سے تو وہ دور ہيں کیونکہ وسائل کی عدم دستیابی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے میں مانع ہے تو بتائے اس سے عوام کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟ بے شک ملکی ترقی میں ان سہولتوں کا ہونا ضروری ہے لیکن جب آپ کے ملک کے حالات ایسے ہوں کہ غریب کو روٹی کے لالے پڑ جائیں لوگ بھوکوں مرنے لگیں توان کے لئے اس کی کوئی حیثیت نہیں ؟

Inflation

Inflation

مہنگائی بڑھے گی تو جرائم میں بھی اضافہ ہو گا –سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں ساڑھے سات فیصد اضافہ کر کے گورنمنٹ نے لالی پاپ دے کر بہلانے کی کوشش کی ہے –اور ساتھ اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں بڑھا دیی گئیں- پرائیویٹ ملازمت کرنے والے تو مہنگائی کے شکنجے سے کس طرح اپنی گردن چھڑا پائیں گے جب کہ ان کے پاس کوئی اور مراعات نہیں ہیں –فا‏ئدہ دیا تو وفاقی سیکرٹریز کو جن کی تنخواہ میں سو فيصد اضافہ کردیا ارے صاحب ان کو تو پہلے ہی بہت سی سہولیات اور مراعات ہیں یہ بھی ان کے حصے میں ہی ؟؟چاول چینی پٹرول مشروبات دودھ دہی کی قیمتیں بڑھا کر ٹیکس بھی لگا دئیے گئے –ھمیشہ کی طرح غریب ہی پسا

Ramadan

Ramadan

اب جب کہ رمضان کی آمد آمد ہے حکومت نےاشیائے خوردونوش کی قیمتیں بڑھاکر صبروشکر کا سبق غریبوں کو دے دیا امراء پر تو اس کا اطلاق نہیں- ٹیکس کے نادہندہ یہ خود اور ساری عیاشیاں اپنے لئے بجٹ کا بوجھ عوام کے سر پر ڈال ديا گيا –ابھی توعوام نے یہ مزدہ جانفزابھی سنا کہ بجلی جو کبھی کبھار ہی ملتی ہے اس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر ديا جائے گا ! مہنگائی توایسے آگے بھاگتی جارہی ہے کہ عوام کی پہنچ سے نکل رہی ہے جیسے زبان حال سے کہہ رہی ہو مجھے پیچھے مڑکر نہیں دیکھنا مجھے آگے بہت آگے جانا ہے –

تحریر: وقارالنساء