بلا وجہ

Book

Book

تحریر : وقارالنساء
یہ ہے احمد سعید صاحب کی لکھی ہوئی کتاب جو مزاحیہ نثر پر مبنی ہے – جو پرتگال کے شہر لسبن میں رہتے ہیں – میں نے اس کتاب کے بارے ميں گل نوخیز اختر صاحب کی تحریر پڑھی تو بے ساختہ دل چاہا کہ اس کتاب کو میں بھی پڑھوں احمد سعید صاحب کا بہت شکریہ جنہوں نے اپنی کتاب مجھے بھجوائی اور میں حقیقتا اس سے لطف اندوز ہوئی۔

قلم کارپنے خيالات اور احساسات کو زبان دينے کے لئے الفاظ کا سہارا ليتے ہيں اور الفاظ خوبصورت اور جاندار ہوں تو تحرير کا حسن بڑھا ديتے ہيں- بلاوجہ کوپڑھنے کے لئے ميں نے کھولا تو پہلا صفحہ جس پر تحريرتھا ايڈورٹائڑمنٹ پڑھنا شروع کيا تومسکراہٹ خودبخود مچل گئی-اس کے متعلق اس لئے نہيں لکھوں گی کہ کتاب کے ٹائيٹل پر تحرير ہے آپ اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہيں اس کے بعد آپ بھی ميری طرح اس کو ضرور پڑھنا چاہيں گے تحريرميں الفاظ کی برجستگی مزاح کی پختگی کا ثبوت تھی اور ہر جگہ مزاح پر ان کی مضبوط گرفت نظر آئی –اس کتاب ميں انہوں نے مختلف مضامين اور سفر نامے تحرير کئے ہیں –سب ہی لاجواب ہيں مزاح نگاری ايک بہت بڑا فن ہے جس ميں کسی بہت گہری بات کو ہلکا پلکا انداز دے کر اس خوبصورتی سے بيان کيا جاتا ہے يہی احمد سعيد صاحب کی تحرير کا خاصہ ہے کہ قاری کی توجہ تحرير سے ہٹ ہی نہيں سکتی ھم بھی بڑے استاد تھے ميں ايک لڑکی کے پنجابی انگلش اور سوکس کی ٹيوشن سينٹر آنے پر لکھتے ہيں۔

Writer

Writer

اپنا نام يعنی ٹيوشن پڑھانے کے لئے سن کر پہلے آسمان سر سے نکلا پھر پاؤں سے زمين ميں نے کہا اگر آپ کو ميرے پہ confidence ہے توميں پہلے ہی over-confident ہوں پر استاد محترم ميری تو اس مضمون ميں پہلے ہی سپلی آئی ہوئی ہے کہنے لگے يہ تو اور اچھی بات ہے تمہاری دہرائی بھی ہو جائے گی
ڈرتے ڈرتے انگلش کی کتاب پکڑ لی کہ کوئی بات نہيں پہلی کہانی “his first flight” ہی ہے جو کئی بار پڑھی ہے پرادھر “my first flight” تھی اس لئے دڑکا تو لگا ہوا تھا کتاب پکڑ کے پہلی کہانی کھولی پھر کھولی – کہانی تو ملے ليکن پہلی کہانی جو سوچی تھی وہ نہ ملے ميں نے کہا آپ کی کتاب ٹھيک نہيں !اس ميں پہلی کہانی ہی نہيں!! وہ اٹھ کر ميرے پاس آئيں اور کتاب دوبارہ کھول کر فرمانے لگيں سر يہ ہے پہلی کہانی پر وہ تو “his first flight” تھی سر وہ کتاب بدل گئی ہے۔

بحری قزاق ميں لکھتے ہيں پرتگال کے ہمسائے ميں يا سمندر ہے يا سپين اسی سمندر سے کولمبس اور واسکوڈے گاما کيا کيا گل کھلاتے رہے جو ہم بھی جانتے ہيں اور آپ بھی !پرتگيزی لڑکيوں کے بارے ميں لکھتے ہيں شکل میں زيادہ خوبصورت ہيں کسی بھی قسم کی معلومات پوچھنے پر اس قدر نرم مزاجی سے پيش آتی ہيں جيسے پاکستان ميں پرائيويٹ سکول کا پرنسپل يا پرائيويٹ ڈاکٹرآپ کی بھری جيب ديکھ کے پيش آتا ہے اپنے ايک مضمون عيدی ميں لکھتے ہيں-نئے جوتوں کے ساتھ ايسے چلا جيسے کوئی سلو موشن ميں چل رہا ہو بچپن ميں جب ابا جان مجھے نئی جوتی لے کر ديتے جب تک اسے آٹھ دس بار پہن نہيں ليتا ميں يہ سمجھتا تھا کہ نئی جوتی سے اگر نارمل ہو کر چلا جائے تو بوٹ کے درميانی حصے ميں دراڑيں پڑ جاتی ہيں جسے پنجابی ميں چوڑ مڑوڑ کہتے ہيں۔

Poetry

Poetry

سات سمندر پار میں لکھتے ہيں ہم نے بھی تيراکی کے جوہر دکھائے سمندر کی لہريں جب واپس جاتيں تو ہم تيزی سے ان کا پيچھا کرتے جب لہريں واپس ميری طرف آتيں تو ميں باہرکو سر پٹ دوڑ لگا ديتا مزاح سے بھرپور يہ کتاب طبيعت کو ہلکا پھلکا کر ديتی ہے اس کے علاوہ ساری کتاب میں ايسی ہی باتيں اور واقعات ہيں کہ آپ ہنسے بغير نہيں رہ سکتے انہوں نے لکھا کہ تيرہ برس سے وہ مزاحيہ نثر لکھ رہے ہيں اور يہ بات ان کی تحرير کو پڑھ کر مزاح کی مہارت ظاہر کرتی ہے –بے شک وہ ايک اچھے مزاح نگار ہيں۔

انہوں نے لکھا کہ چھ سال پہلے شاعری کی کتاب ستارے تيری آنکھیں بھی لکھی اپنی کتاب ميں خالد مسعود صاحب کی نظموں کے اشعار شامل کئے اس لئے یقینا ان کی شاعری کی کتاب بھی مزاح سے بھرپور ہو گی مزاحیہ شاعری کی طرف کچھ میری بھی رغبت ہے کيا ہی اچھا ہو کہ وہ بھی پڑھنے کو مل جائے جو لوگ مزاح پڑھنے کس شوقین ہوں وہ ضرو ان کی کتاب پڑھيں اور اپنی گھریلو لائبریری کی زینت بنائیں۔

تحریر : وقارالنساء