عورت کل بھی مجبور تھی

Compelling Women

Compelling Women

تحریر: انجینئر افتخار چودھری
اور آج بھی مجبور ہے اس کی حرمت بچا لیجئے۔اسے صحافت سے دشمنی کے گند میں نہ رگیدیں۔ دیکھ لیجئے گا اس واقعے کے بعد اسے کوئی بڑا چینیل اٹھا لے گا اس لئے کہ اس کے ایک کلپ نے اس کی ریٹینگ بڑھا دی ہے۔اس کی ریٹینگ تو چڑھ گئی مگر نسوانیت کا ریٹ کم ہو گیا۔اپنی ماں بہن بیٹی کی اخلاقی پیمانوں میں وزن نہ کم ہونے دیجئے۔ عورت زندہ باد۔

وہ بھی ایک بیٹی تھی چاہے اس کی زبان میں تلخی تھی اس کے منہ پر مارا گیا تھپڑ در اصل ایک نیا اشارہ ہے کہ ہم لوگ اب ایک ایسے دور میںداخل ہو چکے ہیں جہاں مرد و زن برابر ہیںپہلے پہل میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جس سیٹ پر کوئی خاتون بیٹھی ہوئی ہوتی تھی وہاں کوئی مرد نہیں بیٹھتا تھا اب تو خواتین کھڑی رہتی ہیں کوئی پوچھتا نہیں۔سوال جو میں چھیڑنے جا رہا ہوں وہ یہ نہیں کہ کہ پولیس والے نے اسے جائز یا ناجائز مارا سوال یہ ہے کہ ہم اتنے ایڈوانس ہو چکے ہیں کہ مرد اور عورت کو برابر سمجھنا شروع ہو گئے ہیں مرد غلطی کرے تو اسی وقت سزا اور عورت کرے تو اسے بھی فورا جواب۔ حضور غلطی پر تھپڑ نہیں مارا گیا بلکہ اس بے حس شخص نے ایک کمزور عورت پر ہاتھ اٹھایا یہ سورما میں دیکھتا کہ اس عورت پر ہاتھ اٹھاتا جس کے ساتھ اس کے ایک دو باڈی گارڈ ڈرائیور ہوتے۔اسے اس لئے مارا گیا کہ یہ ایک غریب کی بیٹی تھی اسے علم تھا کرائے کا کیمرہ مین بھی اس کا ساتھ نہیں دے گا۔

TV anchors

TV anchors

لوگوں کے خیالات پڑھ کر دل پریشان ہوا اور مارو اس کو فلاں مک کو یہ میڈیا ہے ہی اس قابل۔یہ وہ لوگ ہیں جو رات ٣ بجے چاند ماری کر کے سوتے ہیں اور دن کے ٢ بجے اٹھ کر ناشتہ مانگتے ہیں۔ انہیں علم ہی نہیں کہ گھر سے نکلنے والی عورتوں کے کیا مسائل ہیں ۔کیا کسی کو علم ہے کہ ٹی وی پر اینکرز حضرات سے کیا کیا مطالبہ ہوتا ہے لڑائی کروا دو ریٹینگ چاہئے اس غریب کی بچی کو بھی یہی کہا گیا تھا کہ جائو ماحول بنا دو تمہاری رپورٹنگ تمہیں اونچا لے جائے گی۔کیا کیا عجیب تبصرے دیکھے ایک صاحب بڑی دور کی کوڑی لائے ہیں اس ویب پیج کا منشاء اور مقصد ہی ہے کہ اس قوم کو لڑا دو مسلک کے نام پر انہوں نے فرمایا ہے اس کا فلاں مسلک سے تعلق ہے بہت ہی اچھا ہوا اس سلوک کی مستحق تھی۔یارو ایسا نہ کرو میں ٢٠٠٤ میں ملائیشیا گیا وہاں ایک گائڈ ہمیں دی گئی نوجوان بچی تھی صبح سے رات گئے تک ہمارے ساتھ رہتی تھی ایک دن میں نے پوچھا بیٹا تمہارا گھر بار نہیں ہے اتنا کہنا تھا کہ وہ رونا شروع ہو گئی میں نے پوچھا تو کہنے لگی ہاں ہے میرا مرد سارا دن گھر میں ہوتا ہے دوستوں کے ساتھ جواء کھیلتا ہے میں مزدوری کرتی ہوں اور اسے بھی کھلاتی ہوں۔لڑکی نے مجھ سے پوچھا آپ کی بیوی بھی کام کر تی ہے میں نے کہا وہ بھی بہت کام کرتی ہے مگر گھر میں۔یہ معاشرہ کدھر سے کدھر نکل رہا ہے۔ہم نے اسے احترام نسوانیت سے عاری کیا تو یاد رکھئیے کل ہماری بیٹی کو بس میں بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں دے گا کوئی اسے عزت نہیں دے گا۔وہ مکینک کا کام بھی کرے گی اور دیگر سخت کام بھی اس لئے کہ ہم نے اس برابری کا لالچ دیا ہے اگر برابری کا لاچ دیا ہے تو اس سے برابری کی سختیاں اور مشقتیں بھی تو کرائی جائیں گی۔

مجھے کہنے دیجئے کہ بعض اوقات میری تحریر میری سوچ بہت سوں سے مختلف ہو تی ہے ایک ہفتہ ہو گیا ہے انٹر نیٹ پر سب سے زیادہ وائرل ہونی والی ایک ویڈیو ہے جس میں ایک خاتون چیختی اور چلاتی ہے۔ایک پولیس والا وہاں کھڑا ہے مادھو بنا ہوا اور تھوڑی دیر میں ایک تھپڑ اس خاتون کے منہ پر پڑتا ہے۔ اس سے پہلے یہ سنائی دیتا ہے تمہارے گھر کوئی ماں بہن نہیں۔دیکھئے روایات اور قدریں کس قدر بدل گئی ہیں ہم اس منہ زور میڈیا سے بدلا لے رہے ہیں ایسا میڈیا جس میں بھرتی ہونے کا کوئی معیار نہیں جس بیچارے کے ہاتھ کیمرہ لگا چڑھ دوڑا۔اسے صحافت کی اے بی سی کا علم نہیں۔میں ایک عرصے سے ضیاء شاہد اور ان جیسے بڑے مالکان سے درخواست کرتا رہا ہوں خدا را اس قوم پر رحم کیجئے کوئی انسٹی ٹیوٹ کوئی ادارہ بنائیے جہاں طلباء صحافت سیکھ سکیں۔لیکن لگتا ہے خرچے والی چیزیں کسی کو نہیں بھاتیں۔خبریں سے تو اب بھی امید ہے کہ وہ لاہور اور اسلام آباد جہاں اس کے پاس بہترین جگہیں ہیں وہاں ان کلاسز کا اجراء کرے ۔تا کہ صحافتی دنیا میں جو کمی رہ گئی ہے اسے دور کیا جا سکے۔

Owners

Owners

ان اداروں کے مالکان تو خود ٹھاٹھ سے رہتے ہیں کاغذوں میں ان کی تنخواہ اس ایڈیٹر کے برابر ہوتی ہے جس بیچارے کو کئی کئی ماہ ملتی بھی نہیں ہے۔ایک بار ایک اخبار کا رپورٹر بننے کا شوق چڑھا میں نے مالک سے پوچھا خان صاحب میں جو فاکس یہاں جدہ سے(اس وقت جدہ میں ٹھا) پاکستان فیکس کروں تو آٹھ ریا لگتے ہیں یہ پیسے کون دے گا ۔فرمایا چودھری صاحب ساڈے نمائیندے سانوں وی کھواندوں نے تھ آپ وی مزے کردے نیں(چودھری صاحب ہمارے نمائیندے ہمیں بھی کھلاتے ہیں اور خود بھی)۔

یہ تو حال ہے اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا یہ لوگ محلوں کے مالک بن گئے۔آپ نے کوئی کیس پکڑا خبر چلائی بندہ چور تھا عطائی تھا ڈاکو تھا وہ مالک کے پاس پہنچ گیا ااس سے مک مکا ہو گیا نمائیندہ فارغ چور پھر اپنی جگی۔چھاپہ فلاں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا نتیجہ کیا نکلا رپورٹر بے عزت اس کا ہمارے اخبار سے کوئی تعلق نہیں۔کسی کی عزت خاک میں مل گئی مالک کو کیا اس کے پیٹ میں تو حرام چلا گیا۔سب کچھ چلتا ہے مگر خدا را اس ساری لڑائی میں عورت کا احترام نہ مرنے دیجئے۔میں نے بہت سے صحافی دیکھے جو اس واقعے پر عورت سے ہونے والے سلوک کی حمائت کر رہے ہیں۔عورت کل بھی مجبور تھی اور آج بھی مجبور ہے اس کی حرمت بچا لیجئے۔اسے صحافت کے گند میں نہ رگیدیں۔دیکھ لیجئے گا اس واقعے کے بعد اسے کوئی بڑا چینیل اٹھا لے گا اس لئے کہ اس کے ایک کلپ نے اس کی ریٹینگ بڑھا دی ہے۔اس کی ریٹینگ تو چڑھ گئی مگر نسوانیت کا ریٹ کم ہو گیا۔اپنی ماں بہن بیٹی کی اخلاقی پیمانوں میں وزن نہ کم ہونے دیجئے۔ عورت زندہ باد۔

Engineer Iftikhar Chaudhry

Engineer Iftikhar Chaudhry

تحریر: انجینئر افتخار چودھری