کچھ کھٹی میٹھی باتیں

Tharparkar

Tharparkar

تحریر : ثریا بابر
پی ایف سی سی کے اراکین حال ہی میں تھر کے تین روزہ دورے سے وآپس آ ئے ہیں۔یقینا یہ ایک مستحسن قدم ہے کیونکہ کہا وت ہے کہ کسی چیز کا ایک بار دیکھ لینا اس کے بارے میں ہزار بار سننے سے بہتر ہے۔امید واثق ہے کہ اس دورے سے تھر کے باسیوں کی مشکلات میں کچھ نہ کچھ کمی آنے کے امکانات پیدا ہوں گے، میں ١٩٨٩ء سے ٢٠١٥ء تک میر پور خاص کے ایک پسماندہ علاقے حمید پورہ کالونی میں رہی ہوں۔ اگست ٢٠١١ ء کا سیلاب میں نے دیکھا ہے ۔ہمارے گھر سے کچھ دور واقع قبرستان میں لاشیں باہر نکل کر تیرنے لگی تھیں۔کیونکہ زیر زمین پانی کی سطح اتنی بلند ہو چکی تھی کہ مٹی کسی بھی چیز کو اپنے اندر روکنے میں ناکام تھی۔جن لوگوں کے گھر تھوڑے سے بھی کچے تھے ان کے گھر کے فرش سے پانی نے ابل ابل کر طوفان نوح کی یاد دلا دی تھی۔

میڈیا والے بھی آئے تھے اور ٹرک بھر بھر کے امداد بھی تقسیم ہوئی تھی۔کھانے پینے کی وہ چیزیں کچھ عرصے میں ختم ہو گئیں متاثرین اصول تدریج کے ذریعے خود ہی سنبھل گئے، وہ امداد کچھ لوگوں کے کام بھی آئی اور کرپشن کا شکار بھی ہوئی۔اس کے بارے میں میرے صحافی بھائی مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہوں گے ۔کسی مجبور اور لاچار بوڑھے کو مہینے دو مہینے کھانا کھلا کر ہمدردی کا شور نہیں مچایا جا سکتا۔ یہ اس کی عمر بھرکی ضرورت ہے۔ تھر بھی اس وقت ایک مجبور اور لاچار بوڑھے کی طرح ہے مگر خوش قسمتی سے اس کے جسم میں کچھ پوائنٹ ایسے ہیں جہاں حجامے کے ذریعے فاسد خون کے اخراج کی ضرورت ہے اور کنولا کے ذریعے امداد کی۔

اسے یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو یہ بوڑھا پھر سے جوان ہو جائے گا، سندھ یونیورسٹی کے بی اے کے نصاب میں ایک کہانی شامل ہے،THE TRIPODS، اس کہانی میں تین ٹانگوں والی مخلوق نے ایک ملک پر قبضہ کیا ہوا تھا ،یہ مخلوق اپنی رعایا کے ہر بچے کے سر پر ایک سلور سے بنی ٹوپی چڑھا دیتی تھی اور اس کے دماغ کو کنٹرول کر لیتی تھی ۔تھر کے باشندوں کے دماغ پر بھی ایسی ہی ٹوپی چڑھا دی گئی ہے اور اس ٹوپی سے نجات کا واحد ذریعہ صرف اورصرف بنیادی تعلیم کا فروغ ہے ، تھر کے لوگ نہایت با صلاحیت، زیرک اور ذہین ہیں وسائل کی کمی نے یہاں کے لوگوں کو،، جگاڑی،، بنا دیا ہے ،یعنی جگاڑ کرنے والا ۔اور جگاڑ کا مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ وسائل نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے تمام کام خیر و خوبی سے نمٹا لینا۔یہ صلاحیت انسان میں اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اسے ہر طرف سے مجبور کر دیا جائے۔

Tharparkar Education System

Tharparkar Education System

تھر کے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے مگر یہاں بھی انہیں لوٹا ہی جاتا ہے۔نجی اسکول بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں ،مہنگے کورس خریدنے پر مجبور کرتے ہیں ،بیس اسباق میں سے دو اسباق پورے سال میں پڑھاکر اسکول سے بچے کو رخصت کر دیتے ہیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہو رہا ہے ۔میرے جو صحافی بھائی سندھ اسمبلی کی رپورٹنگ کرتے ہیں ان کے علم میں ہو گا کہ سندھ اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کی گئی تھی کہ سندھ بھر میں نقل کو روکنے کے اقدامات کیے جائیں ۔ مگر صوبائی وزیر تعلیم نے یہ قرارداد مسترد کر دی وجہ اس کی وزیر صاحب ہی بتا سکتے ہیں، تھر میں انسانوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک ہو تا ہے اس کی مخالفت میں آواز خود نوجوان وڈیروں میں سے بھی اٹھی ہے۔

سچی بات تھی ، بے انتہا مقبول ہوئی ۔ آپ سب بھی جانتے ہیں۔۔۔ وڈیرے کا بیٹا ہوں میں وڈیرے کا بیٹا، اگر پی ایف سی سی تھر کے حوالے سے تعلیم میں جان ڈال سکیں تو یقینا یہ تھر کی ایک ایسی خدمت ہو گی جو ااس تنظیم کا نام صدیوں زندہ رکھے گی،میں نے اس تنظیم سے منسلک قلمکاروں کے تمام کالم باغور پڑھے ہیں جن کوپڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کے تھر کو اللہ تعالی نے جن نعمتوں سے نوازا ہے اس کا مشاہدہ وہاں جانے کے بعد اچھی طرح کیا جاسکتا ہے۔

Tharparkar Crops

Tharparkar Crops

لیکن کیا کریں کس کے پاس جائیں ؟؟ کس کس بات کا رونہ رویں ؟؟ وہاں موجود آر۔او پلانٹن لگانے والی کمپنی کھیتی باڑی کر کے مختلف سبزیاں تو اگاسکتی ہے لیکن وہاں کے مقامی آبادی کو یہ سہولت میسسرنہیں وجہ اپنے حقوق سے ناواقفیت ہے ،آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ان لوگوں کو ان کے حقوق یاد دلائیں جائیں تب جا کر یہ سیاہ رات چھٹ سکتی ہے ،ورنہ یہ مسائل جوں کے توں رہیں گے اور ناجانے ہم کتنے کالم لیکھ کر اخبارات اور ویب سائٹس کا پیٹ بھرتے رہیں گے۔

تحریر : ثریا بابر