کیا مسلم لیگ ن چوک اعظم میں ورکر کا انتخاب کر پائے گی

Chowk Azam

Chowk Azam

تحریر : ایم آر ملک
ورکرز ہمیشہ سیاسی پارٹیوں میں بطورسمبل اپنی پہچان بنتے ہیں اور جب ایلیٹ کلاس پر برا وقت آتا ہے تو یہی ورکر شاہراہوں پر نکل کر آمر ِ وقت کے خلاف مستقبل کا فیصلہ صادر کرتے ہیں مگر وطن عزیز میں ورکروں کو کبھی پذیرائی نہیں مل سکی اور اس کی بڑی وجہ وہ ایلیٹ کلاس کے ورکر کش فیصلے ہیں جو ورکرز کے کندھوں پر چڑھ کر بطور ایم این اے اور ایم پی اے اپنی جیت کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

چوک اعظم میں یقینا پاکستان تحریک انصاف نے ایک فیصلہ کن فتح موجودہ بلدیاتی انتخابات میں حاصل کی مگر جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ سازکرے کے مصداق ان کی فتح اب شکست میں بدل چکی ہے لیکن مسلم لیگ ن کی صفوں میں چوہدری خلیل ارائیں کی بطور ورکر پہچان کو بھلایا نہیں جاسکتا اُنہوں نے اپنی دوستی کو پارٹی وفاداریوں پر قربان کر دیا اور چوک اعظم میں جب بھی کڑا وقت آیا وہ بطور ورکر ثابت قدمی سے کھڑا رہا پارٹی کے اندر ہونے والی محلاتی سازشوں کی ناکامی میں بھی وہ پیش پیش رہا یہی نہیں مسلم لیگ ن کی چوک اعظم سے فاتح تین نشستوں میں سے صرف چوہدری خلیل ارائیں کی نشست ایسی نشست تھی جو عوامی مینڈیٹ سے جیتی گئی۔

Ch Khalil Arain

Ch Khalil Arain

باقی نشستوں کی جیت پر مخالفین ہی نے نہیں اپنوں نے بھی عدم اعتماد کرتے ہوئے کراس کا نشان لگایا چوک اعظم میں مسلم لیگ ن کی اتنی قلیل نشستوں پر جیت بھی ایلیٹ کلاس کے اس فیصلہ کا شاخسانہ تھا جس کے تحت تمام اختیارات ایک ایسے شخص کو سونپ دیئے گئے جس کا نہ تو مسلم لیگ ن سے تعلق تھا اور نہ ہی اُس نے مسلم لیگ ن کیلئے کوئی تنظیمی ورک کیا۔

ایک نو دولتیئے نے محض دولت کے بل بوتے پر اپنی اور اپنے بیٹے کی سیٹ جیتی امیدواروں کا چنائو ،ٹکٹ کا فیصلہ ،بلدیاتی الیکشن میں یہ اختیارات اگر کلی طور پر چوہدری خلیل ارائیں جیسے ورکر کو سونپ دیئے جاتے تو شاید شکست اتنی بد ترین شکل میں سامنے نہ آتی عام انتخابات میں اس نو دولتیئے نے ووٹ بھی اپنے دیرینہ ساتھی چوہدری اصغر علی گوجر کو دیئے جبکہ چوہدری خلیل ارائیں نے عام انتخابات میں سید محمد ثقلین شاہ بخاری اور قیصر خان مگسی کیلئے دن رات ایک کئے رکھا آئندہ عام انتخابات میں بھی موصوف وہی پرانی روش اپنائیں گے۔

چاہیئے تو یہ تھا کہ بلدیہ چوک اعظم کی چیئر مین شپ کیلئے عوامی رائے کو مد نظر رکھا جاتا اور قرعہ فال مسلم لیگ ن کے ورکر چوہدری خلیل ارائیں کے نام نکلتا ایسا نہ ہو نودولتیئے ملک ریاض گرواں نے شہر کی شاہراہوں پر بغیر کسی مشاورت کے اپنی متوقع چیئر مین شپ کے پینا فلیکس آویزاں کر دیئے جس کا نہ صرف مسلم لیگ ن کے دیرینہ ورکروں نے برا منایا بلکہ وہ عوام رائے بھی خلاف ہو گئی جس نے مسلم لیگ ن کے پلڑے میں ووٹ ڈالا تھا۔

PML-N

PML-N

موصوف نے بلدیاتی انتخابات میں ابتدائی مرحلہ پر ہی اقربا پروی کی انتہا کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو بطور کونسلر کھڑا کر دیا جبکہ اُس نشست پر ایک ورکر ریاض لوہانچ الیکشن لڑنے کے خواہاں تھے مگر دولت کے ذریعے اُس کی رائے کو یر غمال بنا لیا گیا اسی طرح مخصوص نشستوں کے انتخابات میں ایک لیڈی ورکر نرگس جاوید کو ووٹوں کی اکثریت کے باوجود دو ووٹوں کا پڑنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے بلدیاتی ووٹ برادری ازم کے نام پر پڑتا ہے جبکہ چوک اعظم میں اکثریت ارائیں برادری کی ہے چوہدری خالد محمود ارائیں کا یہ کریڈٹ ہے کہ اُس نے ہمیشہ غریب عوام کی آواز اُٹھائی اور عوام نے چیئرمین شپ کی پگ اُس کے سر پر رکھی لیکن تحریک انصاف کے بعد چیئرمین شپ کا اگر ن لیگ سے کوئی حقدار ہے تو وہ چوہدری خلیل ارائیں ہے جس نے ووٹروں کے حق خود ارادیت پر ڈاکہ نہیں ڈالا اب عوام کے حق خود ارادیت چرانے والے خود ساختہ چیئرمین شپ کا اعلان کرتے پھریں تو عوام کم از کم اسے قبول نہیں کرے گی۔

جبکہ چیئرمین شپ کیلئے تعلیم یافتہ فرد کا ہونا بھی ضروری ہے سید ثقلین شاہ بخاری جو کہ ضلعی جنرل سیکریٹری ہیں انہیں عوام کی آواز پر کان دھرتے ہوئے مسلم لیگ ن سے خالصتاً ایک ن لیگی ورکر کا انتخاب کرنا چاہیئے ورنہ آنے والے الیکشن میں قیصر عباس خان مگسی اور سید محمد ثقلین شاہ بخاری کا مقابلہ طاقتور حریفوں سے ہے کتنی بڑی قباحت ہے کہ حلقہ کے ایم پی اے اور ایم این اے کی طرف سے کوئی حتمی فیصلہ نہ آنے کے باوجود پینا فلیکس لگا کر چیئرمین شپ کی تشہیر کر دی گئی ضمیر کے سوداگر عوامی رائے کو بھی نظر انداز کر گئے اور گلیاں ہوجان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے کے مصداق چوک اعظم ایک بار پھر اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔

M.R,Malik

M.R,Malik

تحریر : ایم آر ملک