دنیا پر حکمرانی

Allah

Allah

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے، یہ صلاحتیں ہمیشہ ہماری شخصیت کی کسی گہرائی میں موجود رہتی ہے، جس طرح ایک مصور برش اور رنگوں کی مدد سے اپنے اندر کے موسموں کو کینوس پر اُتارتا ہے بالکل اسی طرح تخلیقی صلاحیت کو دریافت کرنے کے لئے اپنی شخصیت کی تراش خراش کر ناپڑتی ہے، خود اعتمادی ایسا اوزا رہے جس کے بل بوتے پر دنیا پر حکمرانی کی جاتی ہے۔

خود اعتمادی میں ایسا جادوہے جو ہماری تخلیقی صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے،وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ واقعتاً کچھ کر سکتے ہے،آج میں ایسے ہی ایک فردکی کے متعلق بات کروں گا جس نے خوداعتمادی کوہتھیاربناکراپنے اندرچھپے صلاحیت کے خزانوں کو دریافت کیااورپھردنیامیں بہت نام اورپیسہ کمایا۔ 11سال کی عمر میں اپنے گائوں میں ماچس کی فروخت سے اپنے کاروبار کاآغازکرنے والے انگوار کی کمپنی میں آج 41000 ہزار ملازمین کام کرتے ہیں،اُس کی کمپنی 30ممالک میں 150 سٹورز چلا رہی ہے ،وہ دنیا میں لکڑی کا تیسرا بڑا خریدار ہے۔ہر سال 100 ملین کیٹلاگ تقسیم کرنے والی یہ کمپنی تقریبا 256 بلین ڈالرمالیت کی سالانہ مصنوعات فروخت کرتی ہے۔

انگوارکی کمپنی ورکنگ مدرز کے لیے کام کرنے والی دنیا کی سب سے بہترین کمپنی قرار پائی ہے کہ وہ کام کرنے والی مائوں کی ضروریات کا دنیا بھر میں سب سے زیادہ خیال رکھتی ہے۔پانچ سال کی کم عمرمیں کسی ہوٹل،ورکشاپ،فیکٹری یاکارخانے کارخ کرنے کی بجائے اپنے کاروبار کی شروعات کادرست فیصلہ انگوارکوترقی کی بلندیوں پرلے گیا،دنیامیں پانچ سال کی عمرمیںکوئی بھی کالج یا یونیورسٹی ڈگری فراہم کرنے کی طاقت نہیں رکھتی پرانگوارنے چھوٹی سی عمر میں اپنے کاروبارکاآغازکرکے دنیاکویہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ترقی کیلئے ڈگری ضروری نہیں بلکہ ہمت اورمحنت ہی کامیابی دلاسکتے ہیں ،کسی فیکٹری یاکارخانے کی نوکری میں عافیت تلاش کرنے کی بجائے مشکل فیصلوں کے ذریعے چیلنجزکوقبول کرنے والے ہی دنیامیں ترقی کے حق دار ہیں،انگوارنے وہ رازفاش کئے ہیںجواُس کی کامیابی کی بنیاد بنے۔

انگوار کہتا ہے کہ دنیا میں نوکری کرنے والا کوئی بھی فردخوشحال نہیں ہو سکتا،انسان کی معاشی زندگی تب شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے کام کا آغاز کرتا ہے،کامیابی اور ترقی کا تعلیم سے کوئی تعلق نہیں، تعلیم سے روپیہ کمایا جا سکتا تو آج دنیا کا ہر پروفیسر کھرب پتی ہوتا،اس وقت دنیا میں ساڑھے نو سو ارب پتی ہیں،ان میں سے کوئی بھی پروفیسر ،ماہر تعلیم شامل نہیں،دنیا میں ہمیشہ درمیانے پڑھے لکھے لوگوں نے ترقی کی،یہ لوگ وقت کی قدروقیمت سمجھتے ہیں اور یہ لوگ ڈگریاں حاصل کرنے کی بجائے طالب علمی کے دور میں ہی کاروبار شروع کر دیتے ہیں،کامیابی انکو کالج یا یونیورسٹی کی بجائے کارخانے یا منڈی میں لے جاتی ہے،انگوارنے بتایاکہ وہ زندگی میں کبھی کالج نہیں گیااوراس کی کمپنی میں اس وقت 30 ہزار اعلی تعلیم یا فتہ مرد اور خواتین کام کرتے ہیں،یہ تعلیم یا فتہ لوگ مجھ سے عقل اور ہنرمیں بہت بہتر ہیں بس ان میں نوکری چھورنے کا حوصلہ نہیں،انہیں خودپر اور اپنی صلا حیتوں پر اعتبارنہیں،کوئی شخص انگوارکی کمپنی یاکسی اورکیلئے کام کر سکتا ہے تو وہ اپنے لیے بھی کر سکتا ہے۔

Education

Education

بس اس کیلئے ذرا سا حوصلہ چاہیے۔انگوارنے بہت بڑی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہاکہ دنیا میں ہر چیز کا متبادل موجود ہے پر محنت کا نہیں،دنیا میں نکمے لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں جبکہ کام کرنے والوں کے لیے ساری دنیا کھلی پڑی ہے۔دنیااس بات کوتسلیم کرنے پرمجبور ہے کہ مزدور کے گھر پیدا ہونے والے انگوار نے محنت،لگن،حوصلے اور ایمانداری سے اپنا مقدر بدل دیا اوروہ 2007ء میں دنیا کا چوتھا امیر ترین شخص قرارپایا۔انگوار 1926ء سویڈن کے ایک گاؤں Agonnaryd میں پیدا ہوا، اس کے والدین ایک فارم ہاؤس میں مزدوری کرتے تھے، اس کے والدین نے پانچ برس کی عمر میں اسے بھی مزدوری پر لگا دیا پر اس کے چھوٹے سے دماغ نے مزدوری کرنے سے انکارکرتے ہوئے اپنے کاروبار کا فیصلہ کیا، اس کے پورے نام کے دوحصے ہیں انگوار اور کیمپارڈ، اس نے گیارہ سال کی عمر میں ماچس بیچنے کاکام شروع کیا، وہ ماچسیں سائیکل پر گلی گلی بیچتا ، چھ ماہ تک یہ کام کرتا رہا پھر ایک دن اسے خیال آیا کہ وہ شہر سے تھوک میں ماچس خرید کر گاؤں کے دکانداروں اور پھیری والو کو بیچ دے تو زیادہ منافع کما سکتا ہے۔

انگوار اگلے دن اسٹاک ہوم چلا گیا ،تھوک میں ماچس خرید لایا، اس نے یہ ماچسیں تھوڑا سا منافع رکھ کر بیچ دیں، اس نے اگلے سال تک ماچسوں کے کاروبار کو مچھلی، کرسمس ٹری، کرسمس کارڈز، پھولوں کے بیج، بال پوائنٹس اور پینسلوں تک پھیلا دیا، وہ یہ ساری چیزیںتھوک میں خریدتا اورگاؤں کے دکانداروں کو فروخت کر دیتا ، وہ 17 سال کا ہوا تو اس کے والد نے کاربارکیلئے اپنی چھوٹی سی جمع پونجی فراہم کردی،اس نے اس معمولی سی رقم سے ایک ایسی کمپنی کی بنیاد رکھ دی جس نے آنے والے دنوں میں پوری دنیا کا لائف اسٹائل تبدیل کر دیا، انگوار نے اس رقم سے وزن میں ہلکا ،رنگوں میں تیز فرنیچر بنانا شروع کیا،اردگرد کے لوگوں کا خیال تھا کہ اس کا تجربہ ناکام ہو جائے گا کیونکہ اس وقت لکڑی کے بھاری بھر کم فرنیچر کا رواج تھا۔

لوگ ایک مرتبہ فرنیچر بنواتے جو تین،چار نسلوں تک ان کا ساتھ دیتا تھا چنانچہ اس وقت یورپ میں فرنیچر ایک ایسی پراڈکٹ سمجھا جاتا تھا جس کی مانگ نہ ہونے کے برابر تھی، اس وقت تک فرنیچر کے اسٹورز اور شو رومز بھی شروع نہیں ہوئے تھے۔لوگ کاریگروںسے اپنی ضرورت کا فرنیچرآرڈرپر بنوا لیتے تھے ، انگوار نے فرنیچر کو کاروبار کی شکل دینے کا فیصلہ کیا، اس کا خیال تھا کہ آنے والے دور میں پوری دنیا میں نقل مکانی شروع ہو جائے گی، لوگ روزگار کے لیے آبائی علاقوں کوخیربادکہتے ہوئے باہر نکلیں گے لہٰذا اس نقل مکانی کے دوران وزنی فرنیچر کی نقل و حرکت ناممکن ہو گی،اس کا خیال تھا مستقبل قریب میں بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤ بڑھ جائے گا جس کے نتیجے میں مکانوں اور فلیٹوں کا سائز چھوٹا ہو گا چنانچہ لوگوں کو چھوٹے سائز کے مکانوں کے لیے چھوٹے اورکم وزنی فرنیچرکی ضرورت پیش آئے گی ، اُس کا خیال تھا مستقبل رنگوں کا دور ہو گا، آنے والے دنوں میں ہر چیز رنگین ہو جائے گی چنانچہ اس نے ان تمام امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے (ikea) کے نام سے فرنیچر سازی کی پہلی کمپنی کی بنیاد رکھ دی۔

Furniture Making

Furniture Making

دیکھتے ہی دیکھتے انگوار کی کمپنی میں بنے سائز میں چھوٹے، وزن میں ہلکے اور رنگوں میں تیز فرنیچر نے دنیا کا لائف اسٹائل بدل دیا،مزدورکے گھرمیں پیداہونے والے ذہین انگوارنے اپنی محنت اورلگن سے بغیرکسی اعلیٰ ڈگری ایسی ترقی کی کہ آج وہ دنیاکے دس امیرترین افرادکی لسٹ میں شامل ہے،انگوار کی کامیاب زندگی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت اس اندازمیں کی جائے کہ وہ بچپن ہی سے ذمہ داری قبول کرناشروع کردیں تووہ آگے چل کرترقی کرسکتے ہیں،ہمارے ہاں جوسسٹم چل رہاہے اُس میں بچوں کی تمام ضروریات پوری کرنا والدین کے ذمہ ہے جبکہ بچوں کی توجہ صرف کتابوں کی طرف رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مسلمان ہونے کے ناطے سب کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے صبح فجرکی نمازمسجدمیں اداکریں اورساتھ ہی قاری صاحب سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کریں،بچے مسجد سے واپس آتے ہیں تو سکول جانے کاوقت ہوجاتاہے جلدی جلدی تیارہوکراسکول روانہ ہونا،اسکول سے واپسی پرفریش ہوکرکھاناکھانے تک ٹیویشن کاٹائم ہوجاتاہے اورپھرشام تک بچہ مسجد،سکول اوراکیڈمی سے بے زارہوکراس سارے سسٹم سے بغاوت کے طریقے سوچنے پرمجبورہوجاتاہے۔ہمیں اپنے ہاں رائج تعلیمی سسٹم پرنظرثانی کرنے کی اشدضرورت ہے ،ہلکا پھلکا نصاب،زبانوں کے ساتھ فنی قسم کے مضامین میں وطن عزیزمیں دستیاب وسائل کوبہتراندازسے استعمال میں لانے کے جدیدطریقے اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔انگوار نے بغیرتعلیم کے ترقی کی یہ اپنی جگہ بڑی حقیقت ہے پر اس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ ہرماچس بیچنے والا دنیا کاامیرترین فرد بن جائے گا۔

آپ نے دیکھاکہ انگوارنے جب ماچس بیچنے کاکام شروع کیاتب ماچس بنانے والی کمپنی کامالک انگوار سے زیادہ امیرتھااورآج انگوار کی کہانی میں اُس کاکہیں نام بھی نہیں،راقم کے خیال میں معاشرتی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے علم سے بہترکوئی راستہ نہیں،علم ہی انسان کووہ روشنی فراہم کرتاہے جواُسی پستی کے اندھیروں سے نکال کربلندیوں پرفائزکرتی ہے۔صحت وتعلیم اوراچھی تربیت کے ساتھ جولوگ محنت ،لگن اور ایمانداری کے ساتھ آگے بڑتے ہی وہی دنیاپرحکمرانی کرتے ہیں اوروہی قومیں ترقی کی حقدارہیں جواپنی نسل نوکواعلیٰ تعلیم کے ساتھ اپنے وسائل کابہترین استعمال سیکھاتی ہیں۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com
03154174470