دنیا کی دولت اور جان کی قیمت

Terrorism

Terrorism

تحریر : محمد عتیق الرحمن
سانحہ APS پشاور ہو، سانحہ باچاخان یونی ورسٹی ہویاپھر کسی بھی پبلک مقام پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے۔ایسے حملوں سے پاکستانی قوم ایک لمبے عرصے سے نبرد آزما ہے ۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے استحکام کی پاکستانی اتنی قیمت دے چکے ہیں کہ شاید ہی کسی قوم نے دی ہو۔میں اکثر کہا کرتاہوں کہ اتنی قربانیوں، سانحات اور دکھوں کے بعد قومیں اکثر دل چھوڑ بیٹھتی ہیں اور شکست سے دوچار ہوجاتی ہیں ۔لیکن پاکستانی قوم دنیا میں وہ واحد قوم ہے جو اس دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے ملک سے بلکہ دوسرے اسلامی ممالک اور غیراسلامی ممالک سے بھی دہشت گردی کے عفریت کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہے ۔دہشت گرد عموماََ ایسے ٹارگٹ کو نشانہ بناتے ہیں جن سے قوم کو درد زیادہ ہو۔ایسا ہی سانحہ باچاخان یونی ورسٹی کا ہے۔

دہشت گردی سے اس وقت پوری دنیا متاثر ہورہی ہے ۔لیکن جتنے بھی دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں ان میں سے 90% کاشکارمسلمان ہی ہوتے ہیں ۔اور اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ دہشت گرد اسلام کا نام اورلبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کونشانہ بناتے ہیں ۔گویا کہ اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمان کی نسل کشی کرنے کا ایک منظم منصوبہ دنیا میں وقوع پذیر ہے ۔ آرمی پشاورسکول کے سانحہ کے بعد پاکستان میں جس طرح سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاکستان کے دفاعی اداروں نے ان دہشت گردوں کے خلاف ایکشن لیا اسے ترقی یافتہ ممالک تک میں سراہا گیا۔

سانحہ باچاخان یونی ورسٹی کے بعد ایک مخصوص لابی ’کہ جو ملک میں امن وامان قائم کرنے میں فوج اور دفاعی اداروں کے کردار کوسراہنا غداری سمجھتی ہے‘نے پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیا اور فوج کی کامیابیوں پر سوال کرنے شروع کردئیے ۔عجیب تماشا ہے کہ دنیا پاک فوج کے کردارکو سراہتی ہے اور کچھ لوگ جواپنے آپ کو پاکستانی کہتے نہیں تھکتے پاک فوج کے کردارپر سوالات کرتے ہیں ۔پٹھان کوٹ واقعے کے بعدبھارتی وزیر دفاع منوہرپاریکر نے کہا ہے کہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھانکوٹ ایئر بیس میں داخل نہیں ہونے دینگے ،کارروائی نہ ہوئی توایک سال میں دنیا دیکھے گی۔

India and Afghanistan

India and Afghanistan

اس طرح کے بیان کے بعد باچاخان یونی ورسٹی میں دہشت گردوں کا حملہ اور اس کے تانے بانے افغانستان میں بھارتی قونصل خانے سے ملنا ہمارے حکمرانوں کے لئے بہت کچھ سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔اور انہیں چاہیئے کہ بھارت کے اس طرح کے ذمہ داران کے خالف اقوام متحدہ میں ثبوتوں سمیت پیش ہوتا کہ دنیا کے سامنے بھارت کا چہرہ لایاجا سکے۔ پاکستانی میڈیا کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار مزید موثر کرنا ہوگا تاکہ بھارتی سازشوں سے پاکستانی عوام کو بچایاجاسکے اور دشمنوں کے منصوبے ناکام بنائے جاسکیں۔اسی حملے کو اگر ایک اورتناظر میں دیکھا جائے توکچھ اور سمجھ بھی آتاہے ۔یونی ورسٹی میں بربریت کی بدترین تاریخ رقم ہونے سے پہلے پاکستانی وزیراعظم اور آرمی چیف سعودی وایران کے درمیان کامیاب ثالثی دورہ کر چکے تھے اور دونوں ممالک اس تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی امید دے چکے تھے ۔ ورلڈمیڈیا میں پاکستان کے اس کردار کو نہ صرف پسند کیاجارہاتھا بلکہ سراہاجارہاتھا ۔باچاخان یونی ورسٹی پر حملہ کے بعد یہ صورت حال یکسر تبدیل ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کی طرف مبذول ہوگئی اور سعودی وایرانی تنازعہ میں پاکستان کا ثالثی کردار بیک پر چلا گیا۔

دہشت گردی ایک ظلم ہے جس کی اسلام قطعاََ اجاز ت نہیں دیتا ۔اسلام میں تو پانی کے اسراف تک کو منع کیا گیا ہے تو ایک زندہ انسان کے قتل پر اسلام کی کیا تعلیمات ہوسکتی ہیں ۔اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں حالانکہ اسلام تعلیم حاصل کرنے پر زوردیتاہے ۔کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے۔

Murder

Murder

اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے ’’کہ جس نے کسی بے گناہ شخص کو قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کر دیا‘‘۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا’’تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس مہینے (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ۔جی ہاں‘‘۔مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔اس لئے جہاں علما کا فرض بنتا ہے کہ قرآن وحدیث پڑھائیں وہیں میں اس باعزت طبقے سے بصداحترام گذارش کرتاہوں کہ ان خوارج اور اسلام دشمنوں کے خلاف اپنے خطبات میں اسلام کی تعلیمات کو سامنے لائیں تاکہ اسلام کی حقانیت اور اسلام کی امن پسندی دنیا پر واضح ہوسکے۔

میں اپنے گذشتہ کالم میں پاکستان کے اس کردار کو اپنے قارئین کے سامنے رکھ چکا ہوں کہ پاکستان کے بغیر کوئی بھی طاقت سپرپاورطاقت نہیں بن سکتی ۔اس لئے جہاں ان طاقتوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کو اپنی حمایت میں رکھا جائے وہیں ان قوتو ں کی سازشیں بھی ہیں کہ پاکستان کو اپنے گھر کے معاملات میں اس طرح سے الجھا دیا جائے کہ پاکستان کسی بھی اسلامی ملک کی حمایت نہ کرسکے اور نہ اسلامی ملکوں کے باہمی تنازعات کوختم کر سکے ۔اس وقت جہاں ضرورت ہے ہمیں اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو سدھارنے کی وہیں ہمیں شدید ضرورت ہے اپنے رویے درست کرنے کی ۔پاکستانی دفاعی اداروں کو دنیا کے مشکل ترین پراکسی جنگ لڑنی پڑ رہی ہے۔

کیا دہشت گردی کی کاروائیوں میں صرف پاکستانی عوام ہی نشانہ بن رہی ہے ؟کیا صرف سویلین اداروں کو نشانہ بنایاجارہاہے ؟ کیا آج تک کوئی بھی فوجی یا پولیس کا اہلکا ر ان دہشت گردوں کی کاروائی میں شہید نہیں ہوا؟ اگر ان سب سوالا ت کے جوابات’’ نہیں ‘‘میں ہیں توخدارا تنقید کیجئے لیکن ان مجاہدوں اوروطن کے محافظوں سے اظہار ہمدردی بھی کیجئے ۔جان سے قیمتی کوئی دنیا کی دولت نہیں ہوتی ۔دنیا کا کوئی بجٹ ایک انسان کی قیمت ادانہیں کر سکتا۔ تنقید برائے اصلاح کی جائے اور اس میں بھی ان اداروں کی قربانیوں کو مدنظر رکھا جائے۔

Muhammad Atiq ur Rehman

Muhammad Atiq ur Rehman

تحریر : محمد عتیق الرحمن
03216563157