ماں کی ممتا ایک دن کی محتاج کیوں

Mother

Mother

تحریر: ثناءواجد
عورت کا ایک ایسا وجود جس میں چاہت، محبت، ایثار، قربانی، رہنمائی، بلا غرضی، معصومیت، سچائی، خدمت، پاکیزگی، خلوص اور وفا کے رنگوں کے دھنک سے مزین ہواسے ماں کہتے ہیں۔ یہ وہ ہستی ہے جو دل کا سکون اور روح کی ٹھنڈک ہے۔عورت کا یہ روپ اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس کی خوبی کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔ ماں کا روپ اللہ تبارک تعالیٰ کی طرف سے وہ خوبصورت عطیہ ہے جس میں اللہ تبارک تعالی نے اپنی رحمت، فضل، کرم، رحیمی، کریمی، راحت، برکت اور عظمت کی جھلک کی آمیزش شامل کرکے عرش سے فرش پر اتارا اور آخر میں قدموں تلے جنت دے کر ماں جیسے مقدس اوراعلی مرتبہ پر فائز کردیا۔ممتا کے جذبے سے سر شار ایثار و وفا کا پیکراورپر خلوص دعاوں کی پوٹلی کے اس روپ کی خوبی کو بیان کرناسمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔

ایک ماں بحیثیت سب سے پہلی درس گاہ، اپنی محبت، شفقت اور انتھک محنت سے ایک بے وقعت جسم میں زندگی کے مختلف رنگ بھرتی ہے اور پر زندگی کا ایک مقصد متعین کرتی ہے۔ماں اپنی اولاد کے لیے ایک درخشاں ستارہ کی مانند ہوتی ہے۔ ماں جیسی بے لوث اور پر خلوص محبت حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ اس دنیا میں مشکل وقت میں سب ساتھ چھوڑ کر جاسکتے ہیں لیکن ماں واحد ایسی ہستی ہے جو اولاد کے بغیر کچھ بولے اپنی اولاد کی خوشی میں خوش اور تکلیف پر بے سکون ہوجاتی ہے۔

اولاد کی پریشانی میں ماں کی محبت کا پرسکون سمندر شور سے برپا ٹھاٹھیں مارتی لہروں میں تبدیل ہوجاتا ہے لیکن میرے رب کریم کی کرم نوازی ہے کہ اس نے ماں کی زبان میں ایسی تاثیر رکھی کہ وہ اپنی دعاوں سے اپنی محبت کے سمندر کی لہروں میں آئے ہوئے شورکو سکون میں بدلنے کی اہلیت رکھتی ہے اور اپنی دعاوں کے ذریعے تپتی دھوپ کی مانند زمانے کی تکلیفوں سے بچائے رکھنے کے لئے اپنی ممتااور دعاوں کے آنچل کا سایہ ہمیشہ اپنی اولاد پر کیے رکھتی ہے۔

ALLAH

ALLAH

ماں اللہ تبارک تعالیٰ کا ایسا عطیہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے بعد اپنی اولاد کے دل کا حال زیادہ بہتر طریقے سے جان لیتی ہے.اولاد کے دل میں کیا چل رہا ہے ماں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا.اولاد کی نیت کیا ہے ماں دل کی گہرائیوں تک پہنچ کر دل کا کھوٹ،خوشی،غمی،غصہ، ناراضگی سب جان لیتی ہے پر اپنے خون سے جنم دینے والی اولاد کی برائی،خامی کو کسی دوسرے کے سامنے ظاہر نہیں ہونے دیتی۔ماں اپنے خون سے جلا بخشنے والی اولاد کے ان نو ماہ کی تکلیفوں کو اس وقت بالکل بھول جاتی ہے جب بچہ اپنے ننھے منے ہاتھوں سے ماں کا لمس محسوس کرتا ہے،جب اپنے بولنے کی ابتدا میں عجیب وغریب آوازیں نکال کر اپنی ماں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے، جب ماں کی انگلی پکڑ کرچلنا سیکھتا ہے۔

میں یہ کیسے بھول سکتی ہوں کہ میرے بے وقعت جسم کو حیثیت دینے والی میری ماں ہے، مجھے کھانا، پینا، بولنا اور پڑھنا لکھنا سیکھانے والی میری ماں ہے۔ مجھے صحیح اورغلط کی پہچان کروانے والی میری ماں ہے۔ میری زندگی کا مقصد بتانے والی میری ماں ہے وہ ماں جس کی زبان سے ناراضگی اور غصہ میں بھی محبت و پیار مٹھاس نظر آتی ہے۔
ماں کا تو ہر روپ ہی نرالا ہوتاہے ان کی ڈانٹ سے بھی پیار ہی چھلکتا ہے اور ان کے پیار سے بے پناہ پیار کا احساس نظر آتا ہے تو میں کیسے سال کا صرف ایک دن اپنی ماں کے نام مختص کرسکتی ہوں جس میں صرف پھولوں کا ایک گلدستہ یا ایک سوٹ یا پھر شائد کچھ پل”مدرز ڈے“ کے نام پر دے کر اپنا فرض پورا کردوں۔
ایک بار ایک شخص حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں نے اپنی ماں کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کر حج کروایا ہے کیا میں نے ماں کا حق ادا کردیا؟“ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں تونے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا ہے“۔

Muslim

Muslim

تو پھر ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم کیسے اپنی ماوں کی خلوص،محبت اور شفقت سے کی ہوئی پرورش کو بھول کر سال کا ایک دن ان کے نام کردیں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے پوری زندگی،پوری زندگی کا ہر سال،سال کا پورا مہینہ، مہینہ کا ہردن اور دن کا ہر لمحہ ہماری ماں کے نام ہونا چاہیے۔ مدرز ڈے تو اغیار کی روایت ہے جہاں نہ رشتوں کا تقدس ہے اورنہ ہی کوئی اہمیت ہے، جہاں اولاد صاحب حیثیت ہونے کے بعد اپنے ماں باپ کو بے وقعت سمجھنے لگتی ہے اور ماں کی قربانیوں اور پر خلوص محبت کو بالائے طاق رکھ کر ”اولڈ ہاوس“ داخل کروادیتی ہے اور اس طرح اولاد سال کا ایک دن اپنی ماں اور باپ کے نام کرکے اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔

لیکن بحیثیت مسلمان یہ ہماری روایت نہیں ہےاللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ماں کی محبت و شفقت کے مجسم روپ کو عزت و تکریم دینے کی تلقین کی گئے ہے۔ ماں کی محبتوں اور خلوص کی پاسداری رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کرہمیں ماں باپ کے آگے اف تک کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ خوش قسمت ہے وہ اولاد جن کو زمانے کی گرد اور تیز دھوپ سے بچانے کے لئے ان کےسروں پر ماں کا سایہ موجود ہے۔

ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارے لئے اپنی ماں سے پیار کے اظہارکے لئے کوئی ایک دن مخصوص کرنا غلط ہے،بلکہ ہر دن اور ہر لمحہ اپنی ماں کی خدمت اور خیال رکھنے کے لئے ہونا چاہیے کیونکہ ماں سے پیار کے اظہار کے لئے کوئی ایک مخصوص دن کسی جذبے کا محتاج نہیں ہے بلکہ ہر دن،ہر لمحہ ہمارے لئے مدرذ ڈے جیسا ہونا چاہیے.اسی میں دنیا و آخرت دونوں میں ہماری کامیابی پوشیدہ ہے۔

تحریر: ثناءواجد