ایک کہانی بڑی پرانی

Witch

Witch

تحریر: سلطان حسین
کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے جادو بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو جادو ٹونے والا ہوتا ہے اور ایک وہ جو کسی کو سچ اگلنے پر مجبور کر دیتا ہے یہ جادو سب سے زیادہ پر اثر ہوتا ہے لیکن جادو کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے اور وہ ہے الہ دین کا چراغ یا جادو کی انگوٹھی یا پتھر آج کل تو اصلی الہ دین کا چراغ یا جادو کی انگوٹھی یا پتھر ملنا تو مشکل ہے کیونکہ کہ ہم میں سے زیادہ تر لوگ دونمبری ہوگئے ہیں لیکن اس کی اصل کہانیاں ضرور مل سکتی ہیں اکثر لکھاری اپنے چاہنے والوں کو کہانیاں سناتے ہیں آج اس کالم میں بھی آپ ایک کہانی پڑھ لیںکہانی کس کی ہے نہیں معلوم ہمیں بچپن میں اکثر اس قسم کی کہانیاں سنا کر بڑے بزرگ نیکی کا سبق پڑھاتے تھے جسے ہم سن تو لیا کرتے تھے لیکن سمجھ نہیں رہے تھے آج جب یہ کہانیاں یاد آتی ہیں تو سمجھ آرہی ہے کہ بڑے بزرگ کیا سمجھانا چاہتے تھے آج یہ کہانی آپ بھی پڑھ لیں اور اس کا نتیجہ اخذ کرلیں اس کہانی میں جو پیغام ہے مجھے یقین ہے۔

کہ وہ پیغام آپ سمجھتے ہیںبہت عرصہ پہلے کی بات ہے کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی جس کا ایک بیٹا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دے کر کہا”بیٹے جا کر بازار سے روٹیاں لے آ”۔لڑکا پیسے لے کر بازار جا رہا تھا راستے میں اسے کچھ بچے نظر آئے بچے بلی کے ایک مریل سے بچے کو ستارہے تھے اسے بلی کے بچے پر رحم آ گیا اور اس نے پاس جتنے پیسے تھے سب دے کر ان سے بلی کے بچے کو لے لیا اور اس کو گود میں اٹھائے واپس گھر آیا۔ماں اس سے روٹیوں کے بارے میں پوچھا تو لڑکے نے جواب دیا”ماںروٹی تو نہیں لایا بلی کے ایک بچے کو لے لایا ہوں”۔ماں نے حیران اور اداس ہو گئی لڑکے نے سارا حال اپنی ماں کو سنانے کے بعد کہا”ماں کوئی بات نہیں ایک دن روٹی کھائے بغیر ہی رہ لیں گے”۔دوسرے دن ماں نے لڑکے کو پھر کچھ پیسے دے کر قصائی کی دکان پر بھیجا راستے میں سڑک پر لڑکے نے دیکھا کہ کچھ لڑکے ایک پلے کو پتھروں سے مار رہے ہیں۔ لڑکے کو اس پلے پر بھی رحم آ گیا اور اس نے لڑکوں کو سارے پیسے دے کر پلالے لیا اور گھر واپس آ گیا۔ماں نے بیٹے سے پوچھا”لے آئے گوشت؟”۔لڑکے نے کہا”ماں! آپ ناراض نہ ہوں آپ نے جو پیسے دیئے تھے ان کو دے کر میں یہ پلا لایا ہوں”۔

Mother

Mother

ماں نے اداس ہو کر کہا”ارے بیٹے ہم ٹھہرے غریب لوگ میں نے جانے کتنی مشکلوں سے وہ پیسے کمائے تھے تم ان سے پلا خرید لائے بھلا یہ پلا ہمارے کس کام کا؟ اور پھر اس کو کھلانے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے بھی تو نہیں”لڑکے نے جواب دیا”ماں کوئی بات نہیں ہم ایک دن گوشت کے بغیر بھی جی لیں گے”۔تیسرے دن پھر ماں نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دیئے اور اسے تیل لانے کے لیے بازار بھیجا وہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کچھ لڑکے چوہے کے ایک بچے کو جو چوہے دان میں پھنس گیا تھا ستا رہے تھے اس کو چوہے کے بچے پر رحم آ گیا اس نے اپنے سارے پیسے دے کر اس کو لے لیا اور لیے ہوئے گھر واپس آیا۔

ماں نے پوچھا” بیٹے! تیل لے آئے؟” تو اس نے بتایا کہ کس طرح اسے تیل کی بجائے چوہے کے بچے کو لینا پڑا۔ ماں بیٹے سے بہت پیار کرتی تھی اس لیے اس بار بھی اس نے بیٹے کو برا بھلا نہ کہا بس ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔ بہت دن گزر گئے لڑکا جوان ہو گیا پلا کتا بن گیا’ بلی کا بچہ بڑا ہو کر بلی بن گئی اور چوہے کا بچہ بھی ایک اچھا خاصا چوہا بن گیا ایک دن نوجوان نے دریا میں مچھلی پکڑ لی اس نے مچھلی کو کاٹا اور اس کی آنتیں نکال کر کتے کے آگے پھینک دیں کتا آنتوں کو کھانے لگا تو اچانک ان میں سے ایک چھوٹا سا پتھر مل گیا جو سورج کی مانند چمک رہا تھاکتا نوجوان کو دیکھ کر بھونکنے لگا۔ نوجوان جب اس کی طرف متوجہ ہوا تو اسے نے چمکتاہوا پتھر دیکھا پتھر دیکھ کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی اور وہ اچھلنے کودنے لگا کیونکہ وہ ایک جادو کا پتھر تھا جس کے متعلق نوجوان نے لوگوں سے سن رکھا تھا اس نے پتھر کو اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھا”اے جادو کے پتھر مجھے کھانا کھلا ”یہ کہہ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا پلک جھپکتے میں اس کے سامنے ایک بیش قیمت دسترخوان پر ایسے انوکھے اور لذیذ کھانے چنے ہوئے تھے جس کو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا پھر وہ دوڑ کر گھر آیا اور وہ جادو کا پتھر اپنی ماں کو دکھایا ماں بہت خوش ہوئی۔

اس دن سے ماں اور بیٹا دونوں بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ایک دن نوجوان شہر گیا وہاں گھوم پھر رہا تھا کہ اچانک اسے ایک نہایت حسین جوان لڑکی نظر آئی وہ لڑکی نوجوان کو اتنی زیادہ پسند آئی کہ اس نے اس سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گھر لوٹ کر اس نے اپنا یہ ارادہ ماں کو بتایا۔ماں نے حیرت سے کہا۔ ”تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ لڑکی خود بادشاہ سلامت کی بیٹی ہے ۔ نہ بابا میں پیغام لے کر بادشاہ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی”۔لیکن نوجوان اصرار کرتا رہا اور آخرکار ماں مجبوراََ راضی ہو گئی اس نے کہاجب سب لوگ سو گئے تو رات کے پچھلے پہر نوجوان کی ماں شاہی محل تک پہنچ گئی اور محل کے دروازے کے سامنے کی سڑک پر جھاڑو دے کر اس کی صفائی کر دی۔صبح کو بادشاہ محل سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ دروازے کے سامنے کی ساری زمیں صاف ستھری ہو گئی ہے۔

اگلے دن صبح پھر اس نے دیکھا تو یہی حال تھا۔ اسے زیادہ تعجب ہوا اور اس نے رات کو دروازے کے سامنے پہریدار کھڑے کر دئیے۔تیسرے دن صبح سویرے پہریدار ایک عورت کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے بادشاہ نے عورت سے پوچھا” تم رات کو روز میرے محل کے دروازے کے سامنے جھاڑو کیوں دیتی ہو؟”۔عورت نے کہا”میں ایک غریب بیوہ ہوں میرا ایک بیٹا ہے میں آپ کی بیٹی سے اس کی شادی کی خواہش لے کر آئی تھی لیکن آپ کے پاس یوں چلے آنے کی مجھے جرات نہیں ہوئی اور پھر آپ کے پہریدار بھی تو آنے نہ دیتے”۔کسی غریب عورت کی یہ گستاخی بھلا بادشاہ کیسے برادشت کرتا اس نے غصے میں آ کر حکم دیا کہ عورت کو قتل کر دیا جائے لیکن اس کے ایک دانازیر نے کہا”بادشاہ سلامت اس بیچاری عورت کو قتل کروانے کی کیا ضرورت ہے آپ اس کو کوئی ایسا کام بتائیے جس کو پورا کرنا اس کے بس کی بات نہ ہو بس پھر یہ خود ہی آنا بند کر دے گی”۔وزیر کی بات بادشاہ کو پسند آئی اور اس نے عورت سے کہا”جا۔۔ جا کر اپنے بیٹے سے کہنا کہ وہ میری بیٹی سے شادی کے لیے چالیس اونٹوں پر سونا لاد کر لائے”۔

Gold

Gold

عورت نے اداس ہو کر سوچا ہم بیچارے اتنا سونا کہاں سے لائیں گے؟ اور اس نے محل سے نکل کر اپنے گھر کی راہ لی۔ گھر لوٹ کر اس نے بادشاہ کی شرط اپنے بیٹے کو بتائی تو نوجوان نے ماں سے کہا”امی جان آپ فکر نہ کیجیئے”۔اس نے جادو کے پتھر کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس سے کچھ کہا بس پھر کیا تھا صبح ہوتے ہی غریب بیوہ کی جھونپڑی کے سامنے سونے سے لدے ہوئے چالیس اونٹ کہیں سے آ کر کھڑے ہو گئے۔ نوجوان نے ماں سے کہا”امی جان! آپ ان چالیس اونٹوں کو بادشاہ کے پاس لے جائیں”۔ماں کو بڑا تعجب ہوا لیکن وہ کچھ کہے بغیر ان چالیس اونٹوں کو ہانکتی ہوئی بادشاہ کے پاس لے گئی۔ بادشاہ کو بھی بہت تعجب ہوا لیکن اس نے فورا ہی ایک اور حکم صادر کر دیا۔ اس نے عورت سے کہا”اپنے بیٹے سے جا کر کہنا کہ وہ اپنی دلہن کے لیے ایک محل بنوائے جو سارے کا سارا خالص سونے کا ہو تب ہی شادی بیاہ کی بات ہو سکتی ہے”۔

ماں اور زیادہ اداس ہو گئی اور گھر جا کر بادشاہ کی نئی فرمائش اپنے بیٹے کو سنائی۔ نوجوان نے ماں کی باتیں چپ چاپ سن لیں اور پھر اس سے کہا”امی جان!آپ فکر نہ کیجیئے۔۔ خالص سونے کا محل بھی بن جائے گا”۔راتوں رات ہی جادو کے زور پر محل بن گیا صبح سویرے دریا کے کنارے ایک عالیشان محل کھڑا تھا جو سارے کا سارا خالص سونے کا تھا ایسا محل اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا تھا ماں نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا”بادشاہ سلامت لیجیے محل تیار ہے ذرا باہر چل کر اس کو دیکھیے تو”۔بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ باہر آیا اور محل دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اب تو اس کو ٹال مٹول کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے غریب نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔کہانی یہاں آکر ختم نہیں ہوئی لیکن میں اس کہانی کو یہاں تک ہی آپ کو سنانا چاہتا ہوں کہانی کا دوسرا حصہ پھر کسی اورکالم میں پڑھ لیںکیوں کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

وہ آپ کی سمجھ میں آرہا ہے اس نوجوان کو جادو کا پتھر مل گیا تھا اور اسے بغیر کسی محنت کے گھر میں بیٹھے بیٹھائے بہت کچھ ملنے لگا ہمارے ملک میں بھی بہت سے ان ”غریبوں” کو جن کے پاس کبھی کچھ بھی نہ تھا اور آج وہ اربوں کھربوں میں کھیل رہے ہیں جو کبھی عام تھے وہ خاص ہو گئے اور پھر خاصلخاص ہوگئے ان کے پاس بھی جادو کی چھڑی آگئی جس سے وہ راتوں رات امیر بن گئے اور آج وہ دولت کے انبار میں کھیل رہے ہیں ان میں سے کسی کو جادو کا پتھر ملا کسی کو الہ دین کا چراغ مل گیا اور اس جادو کے پتھر اور جادو کے چراغ سے کھل جا سم سم کے ساتھ ہی کسی نے بڑے بڑے محل بنا لیے کسی نے فیکٹریاں لگا لیںاور کسی نے پلازے کھڑے کرلیے یہی نہیںکسی کو کروڑوں اور کسی کو اربوں بغیر کسی محنت کے بیٹھے بیٹھائے مل گئے کئی نے غیروں کے بنک بھر دئیے کسی نے گھر کے تہہ خانے بھر لیے اور بھر رہے ہیں کسی کو زمین پر جگہ نہیں مل رہی ہے۔

کوئی ہواؤں میںاڑ رہا ہے یہ قصے کہانیوں کے بادشاہوں سے بھی بڑھ کر بادشاہ بن گئے اور لوگوں کی قسمت کے فیصلے کرنے لگے کہانی یہی ختم نہیں ہوئی اور نہ ہو رہی ہے بلکہ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے اور یہ تب تک جاری رہے گا جب تک یہ جادو کے پتھر یا چراغ ان کے پاس رہیں گے اور کوئی ان سے یہ لے نہ لیں یہ کون لے گا اس کا فیصلہ جنہوں نے کرنا ہے وہ جانتے ہیں اور فیصلہ وہی کریں گے اگر کرنا چاہیں یہ سوچنے والی بات ہے کہ وہ کون ہیں یہ طے کرنا ہم سب کا کام ہے کہ یہ کام کس نے کرنا ہے ۔ جب تک الہ دین کے چراغ یا جادو کی انگوٹھی یا پتھر ان کے پاس رہیں گے یہ جادو کی چھڑی کی طرح گما کر” رعایا” کی قسمت سے کھیلتے رہیں گے اور جب تک یہ رعایا کی قسمت سے کھیلتے رہیں گے تب تک ”رعایا” کی قسمت نہیں بدل سکتی یہ بادشاہ خود تو چین کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ رعایا کو انہوں نے بے چین کر رکھا ہے یہ بے چینی کیسے دور ہوگی یہ رعایا کو سوچنا ہوگا۔ قارئین جس بادشاہ کی بیٹی سے اس نوجوان نے شادی کی تھی اس بادشاہ کے محل میں ایک چڑیل بھی رہتی تھی جو ہماری زندگیوں سے بھی چمٹی ہوئی ہے اس کی کہانی اگلے کسی کالم میں آپ کو بتائیں گے ۔

Sultan Hussain

Sultan Hussain

تحریر: سلطان حسین