ظلم کا نظام آخر کب تک قسط نمبر 3

Jobs

Jobs

تحریر : شیخ توصیف حسین
کہاوت ہے کہ ایک دفعہ سرکاری ادارے کی جانب سے اشتہار اخبار تحریر کیا گیا کہ چپڑاسی مالی اور چوکیدار کی ملازمت کیلئے مڈل پاس نوجوان رجوع کریں اس اشتہار کو پڑھ کر ایک نوجوان جو ایم اے انگلش اور ایم اے نفسیات کی ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود متعدد بار نوکری حاصل کر نے میں محض اس لیے قاصر رہا چونکہ مذکورہ نوجوان کے والدین نہ تو سیاست دان تھے اور نہ ہی کوئی بہت بڑے بیوروکریٹس وہ تو بس ایک غریب محنت کش تھے نے اپنے بوڑھے والدین جو اپنے اکلوتے بیٹے کی بے روز گاری سے دلبرداشتہ ہو کر بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بن کر رہ گئے تھے کی خوشنودگی اور کفالت مذکورہ ادارے میں یہ سوچ کر چپڑاسی کی ملازمت حاصل کرنے کی درخواست دے دی کہ اُسے نفسا نفسی کے شکار پر آ شوب معاشرے کے ٹھیکیدار سیاست دان اور اُن کے منظور نظر بیوروکریٹس جو نوٹوں کی چمک سے مرعوب ہو کر اپنا ضمیر اور ایمان فروخت کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

بغیر رشوت کے کسی بھی صورت میں میرٹ اور قابلیت کی بنا پر نوکری نہیں دیں گے اور ان سے کسی اچھائی کی توقع رکھنا بھی بس ایک دیوانے کا خواب ہے قصہ مختصر کہ مذکورہ نوجوان مقرر کردہ وقت کے مطا بق انٹرویو دینے کیلئے مذکورہ سرکاری ادارے میں پہنچ گیا جہاں پر انٹرویو لینے والے آ فیسر نے مذکورہ نوجوان سے لاتعداد سوالات کیے جس کے ہنڈرڈ پرسنٹ جوابات مذکورہ نوجوان نے دیئے جس کے جوابات سن کر انٹرویو لینے والے آ فیسر نے پریشان ہو کر مذکورہ نوجوان کو وہاں سے جانے کیلئے کہا مذکورہ نوجوان جب وہاں سے جانے لگا تو اُس نے مذکورہ آ فیسر کو مخاطب ہو کر کہا کہ مجھے یہ بخوبی معلوم ہے کہ مجھے چپڑاسی کی نوکری بھی نہیں ملے گی چونکہ میرے پاس نہ تو آپ کو دینے کیلئے کوئی نذرانہ ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی سفارش یہ کہہ کر مذکورہ نوجوان بوجھل قدموں کے ساتھ واپس چلا گیا اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد انٹرویو لینے والا آ فیسر اخبار پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران اُسے مذکورہ نوجوان کی نعش خون میں لت پت نظر آئی جو ڈکیتی کی واردات کے دوران پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن کر اس ظالم اور بے رحم نظام کے منہ پر طمانچہ مار رہی تھی در حقیقت تو یہ ہے کہ آج وطن عزیز میں عوامی نمائندے جو غریب عوام کے ووٹوں کی طاقت سے صوبائی و وفاقی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔

اپنے اپنے حلقے کی غریب عوام کے بنیادی حقوق کی جنگ لڑنے لیکن افسوس کہ یہ وہاں پہنچ کر غریب عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کر نے کے بجائے اپنے ذاتی مفاد کیلئے حاکمین وقت سے ذاتی تعلقات استوار کر کے اپنے اپنے علاقوں میں من پسند بیوروکریٹس کو تعنیات کروا کر لوٹ مار ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی تاریخ رقم کرنے کے ساتھ ساتھ ظالم اور بے رحم نظام کو فروغ دینے میں مصروف عمل ہو کر رہ گئے ہیں آپ یقین کریں یا نہ کریں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعض عوامی نمائندے تو محض اس لیے اپنے علاقوں کو تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرتے چونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ اگر ان کے علاقے کی غریب عوام خوشحال ہو گی تو ان کی خدمت اور احترام کون کرے گا سچ تو یہ ہے کہ یہ وہ ناسور ہیں جو سوتے ہوئے ڈرائونا خواب دیکھ کر تو ڈر جاتے ہیں لیکن جاگتے ہوئے یہ خداوندکریم کے عذاب سے نہیں ڈرتے ہاں تو مجھے یاد آیا کہ میں نے اپنے گزشتہ دو شماروں میں اس ظالم اور بے رحم نظام کی ایک چھوٹی سی مثال اپنے قارئین اور بالخصوص حاکم وقت میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی نظر کی تھی جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ محمد امین نامی نوجوان جو تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ سینٹری انسپکٹر کا ڈپلومہ حاصل کیے ہوئے تھا نے اپنے بیمار و لاغر والدین بیوہ بہن کے چار بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے تین بچوں کی کفالت کیلئے آج سے تقریبا سات سال قبل بلدیہ جھنگ میں بطور میٹ بھرتی کیئے جانے کے بابت ایک تحریری درخواست گزاری لیکن رشوت نہ دینے کے پاداش میں مذکورہ نوجوان کو جھنگ سٹی گندے پانی کے ڈسپوزل پر تعنیات کر دیا۔

جبکہ دوسری جانب بلدیہ جھنگ کے ارباب و بااختیار نے نوٹوں کی چمک سے مرعوب ہو کر متعدد بیلداروں سیور مینوں اور چونگی محررروں کو غیر قانونی طور پر کلرکوں کی سیٹ پر جبکہ متعدد کو سینٹری انسپکٹروں کی سیٹوں پر تعنیات کر کے قانون اور انصاف کی دھجیاں اُڑا دی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اگر آج بھی کوئی ایماندار اور فرض شناس بالخصوص محب وطن آ فیسر ان ترقی پانے والے اہلکاروں کی سند اور تعلیمی معیار کا آ ڈٹ کرے تو انشاء اللہ تعالی دودھ کا دودھ اور پانی کا پا نی ہو جائے گا قصہ مختصر کہ مذکورہ نو جوان اسی ذلت آ میز نوکری کو اپنا مقدر سمجھ کر عرصہ سات سال تک اپنے فرائض و منصبی کو عبادت سمجھ کر ادا کرتا رہا یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ نوجوان اپنی نوکری کی تنخواہ سے اپنے اہلخانہ کی پرورش کرتا جبکہ اپنی بیوہ بہن کے چار بچوں اور اپنے تین بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ کر نے کیلئے وہ اپنی ڈیوٹی کے بعد ریڑھی لگاتا اور کبھی سبز منڈی میں پلے داری کرتا بے رحم وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ اسی دوران بلدیہ جھنگ کا ہیڈ کلرک شیخ امتیاز جو کہ اپنے آپ کو ایم این اے جھنگ شیخ محمد اکرم اور چیرمین بلدیہ جھنگ شیخ نواز اکرم کا قریبی عزیز بتاتا ہے نے مذکورہ نوجوان سے یہ کہتے ہوئے چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کر دیا کہ اگر تم نے مجھے مطلوبہ رقم بروقت ادا نہ کی تو میں تمھیں سڑکوں کی صفائی پر مامور کر کے زمانے بھر میں رسوا کر دوں گا یہ سن کر مذکورہ نوجوان روتا ہوا بلدیہ جھنگ کے لائن سپرئنڈنٹ نسیم خان کے پاس پہنچا اور اُسے مذکورہ ہیڈ کلرک کے اس گھنائونے اقدام کے متعلق آگاہ کیا جس نے بر وقت مذکورہ ہیڈ کلرک کے اس گھنائونے اقدام کی اطلاع چیرمین بلدیہ جھنگ شیخ نواز اکرم کو دی قصہ مختصر اس آ گاہی کے باوجود مذکورہ نوجوان کو رشوت نہ دینے کے پاداش میں نوکری سے نکال دیا جس کے نتیجہ میں مذکورہ نوجوان دھاڑے مار کر روتا ہوا۔

میرے پاس پہنچا اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے بارے آ گاہ کیا جس پر میں نے اُسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ چلو میرے ساتھ میں ہیڈ کلرک سے بات کرتا ہوں قصہ مختصر کہ جب میں مذکورہ نوجوان کو لیکر ہیڈ کلرک کے پاس پہنچا جس کو دیکھتے ہی مذکورہ ہیڈ کلرک غلیظ گالیاں دینے کے ساتھ ساتھ مذکورہ نوجوان کو کہنے لگا کہ میں تمھارے ساتھ ساتھ اُن تقریبا تین سو اہلکاروں کو بھی بلدیہ جھنگ سے باہر نکال پھینکوں گا کہ جہنوں نے سپاہ صحابہ کو ووٹ دیئے تھے جس کا رزلٹ بہت جلد نکل آئے گا ویسے بھی مجھے یہ حکم ایم این اے شیخ محمد اکرم نے دیا ہے یہ سننے کے بعد میں نے مذکورہ ہیڈ کلرک سے کہا کہ یہ صرف اور صرف تمھاری گندی سوچ کا نتیجہ ہے رہا مسئلہ ایم این اے شیخ محمد اکرم کا تو وہ ایسا گھنائونا اقدام کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتے اور یہ جو تم نے سپاہ صحابہ سپاہ صحابہ کی رٹ لگائی ہے کیا تم اور تمھارا خاندان سپاہ صحابہ کی الیکشن میں سپورٹ نہیں کرتا رہا اور جو تم اپنے آپ کو ایماندار سمجھتے ہو تمھارے پانچ بچے اور بچیاں جو ایم بی بی ایس اور انجینئرز کی ڈگریاں حاصل کرنے میں مصروف عمل ہیں ان کے لاکھوں روپے ماہانہ اخراجات تم کہاں سے پورے کرتے ہو ویسے بھی تم کسی رئیس خاندان کے فرد نہیں تمھیں تو شیخ محمد اقبال مرحوم نے چونگی پر گاڑیوں میں لدے ہوئے سامان کے متعلق تعنیات کیا تھا ویسے بھی تمھارے متعلق شنید ہے کہ تمھارے پاس نہ تو میٹرک کی سند ہے اور نہ ہی ایف اے کی اور یہ جو تم علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی ڈگری لیے گھوم رہے ہو اگر تم واقعہ ہی قابل ہوتے تو آج یوں اپنے دفتر میں چار اہلکاروں کو اپنی سپورٹ کیلئے نہ رکھتے ارے تم تو وہ ناسور ہو جو بلدیہ جھنگ کو دیمک کی طرح چاٹ کر ہڑپ کر رہے ہو تمھاری کرپشن کے چر چے تو ہر زروزبان پر عام ہیں ارے تم جیسے وفاداروں جو ذاتی مفاد کیلئے ظلم اور بے رحمی کے نظام کو فروغ دے رہے ہیں کی وجہ سے شیخ وقاص اکرم گروپ کو ضمنی الیکشن میں بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ جو تمھارا ساتھی سیورمین چوہدری اسحاق یہ بھی سپاہ صحابہ کا بہت بڑا سپوٹر رہا ہے جسے تم اور تمھارے ساتھیوں نے غیر قانونی طور پر سینٹری انسپکٹر کے عہدہ پر تعنیات کیا ہے۔

اب تم سب امیر المومنین ہو جبکہ باقی ماندہ یذیز ارے اگر تم نے محاسبہ کرنا ہی ہے تو اپنے آپ کا کرو تم تو خود ڈریکولا کا روپ دھار کر غریب عوام کا خون چوس رہے ہو ارے تم شیخ وقاص اکرم گروپ کے وفادار نہیں بلکہ ایسا بد نما داغ ہو جس کے گھنائونے اقدام کو دیکھ کر انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جاتا ہے میری ان باتوں کو سننے کے بعد مذکورہ ہیڈ کلرک نے غصے سے کانپتے ہوئے ہونٹوں سے کہا کہ میں تمھاری ان باتوں کی وجہ سے تمھارے داماد کو بلدیہ کی ملازمت سے فارغ کرتا ہوں جسے سننے کے بعد میں نے مذکورہ ہیڈ کلرک کو مسکراتے ہوئے کہا کہ تم میرے داماد کو نوکری سے فارغ کرو یا نہ کرو لیکن میں اسی وقت اس نوکری پر لعنت بھیجتا ہوں جو آپ جیسے ظالم اور بے رحم نظام کو فروغ دینے والوں کی دلالی کر کے حاصل کی جائے یاد رکھو کہ جو طاقت پتھر میں پڑے ہوئے کیڑے کو خوراک مہیا کرتی ہے وہی طاقت میرے داماد کو بھی خوراک مہیا کرے گی ویسے تم سن لو کہ یہ جو تم ظلم اور بے رحمی کے نظام کو فروغ دے رہے ہو خداوندکریم کی لاٹھی بے آ واز ہے جب پڑتی ہے تو چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے اور ہاں یہ بھی یاد رکھنا کہ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے آ خر میں بس یہی کہوں گا۔

کہ کٹ ہی جائیں گی یہ ظلم و ستم اور ناانصافیوں کی زنجیریں
میں تو بے رحم وقت کی تقدیر کو بدلنے کیلئے چلا ہوں

Sheikh Touseef Hussain

Sheikh Touseef Hussain

تحریر : شیخ توصیف حسین