زرد پتے۔۔۔۔۔قسط ٢

Zard Patty

Zard Patty

تحریر : عفت بھٹی
انسانی زندگی بھی بہت عجیب شئے ہے ہمیشہ نئے روابط اور رشتوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ آدم وحوا کے مابین یہ برسوں سے ہوتا آیا ہے ۔قدرت نے دونوں کی فطرت میں کچھ ایسی مقناطیسی کشش پیدا کی ہے کہ نظروں کا تصادم تو دور کی بات موجودگی ہی کچھ ایسے احساس پیدا کر دیتی ہے کہ متوجہ ہونا لازم ہو جاتا ہے، بیلا اماں ابا کی گفتگو سن چکی تھی۔ ایک لحاظ سے اسے خوش ہونا چاہیے تھا کہ وہ پی کے گھر سدھارنے والی ہے۔ مگر برا ہو اس دل و دماغ کا جس پہ دس دن سے عاشر سوار تھا۔ دوہا جو اور ایک بچی کا سن کے ویسے ہی اس پہ ناگواری چھا گئی۔ اس کے کورے جذبے اس کی طرح کورے جذبوں کے متلاشی تھے مگر ماں باپ کے سامنے دستِ سوال اور خودسری اس کی فطرت میں نہ تھی اسے اپنے ماں باپ سے بھی محبت تھی ۔وہ کیا کرے کیا نہ کرے کی کشمکش نے اسے ادھ موا کر دیا ۔بہت سوچنے کے بود اس نے عاشر سے بات کرنے کا سوچا ،اپنے دل کو مطمئن کرتے ہوئے اس نے آنکھیں موند لیں۔

بیلا بیٹا آج اچھے سے صفائی کرنا شام کو کچھ مہمان آنے ہیں ۔اماں نے خوشی سے بھرپور لہجے میں اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور سن وہ اپنا گلابی سوٹ بھی بکسے سے نکال کے استری کر لے ۔سمجھ گئی نا میری بات ۔۔جی اماں بیلا نے مرے مرے لہجے میں کہا ۔خوش رہ ماں کے لہجے میں پیار اور خوشی کے آنسو سمٹ آئے۔بیلا نے سر اٹھا کر اماں کو دیکھا ۔کیا وہ ان کی خوشی کو دکھ میں بدل پائے گی۔؟ نہیں دماغ نے دہائی دی میں اپنی ماں کو دکھی نہیں کر سکتی،مگرعاشر تمھاری محبت دل نے واویلا مچایا ؟ْْْ اس نے ایک نظر پھر ماں کے چمکتے ہوئے چہرے پہ ڈالی پل بھر میں فیصلہ ہو گیا ماں کی محبت جیت گئی اور دل ہار گیا۔

Girl

Girl

اس نے سب کچھ تیار کر کے رکھا ۔بریانی دم پہ رکھ کے باتھ روم گھس گئی ۔پانی کی تیز پھوار میں اس نے اپنے جذبات اور آنسو بہا ڈالے وہ ہر گز اپنی نئی زندگی کسی پچھتاوے سے شروع نہ کرے گی،دل کا بوجھ اترا تو شگفتگی در آئی اس نے خود کو ہلکا پھلکا محسوس کیا ۔ماں کی ہدایت پہ سادہ سا ہار سنگھار بھی اسے خاص بنا گیا ۔صورت شکل تو خدا کی دین ہے اس کا شمار بہت خوبصورت نہ سہی مگر اتنا گئے گذروں میں بھی نہ ہوتا تھا البتہ اس کے گھنے دراز بال بہت خوب صورت تھے ۔اماں نے اسے دیکھا تو بلائیں لیں ابا نے سر پہ ہاتھ رکھا ۔شاید یہی موقع ہوتا ہے جب جنم دینے والے اپنے جگر گوشے کو دعا کے ساتھ خود سے جدا کرتے ہیں اس امید پہ کہ ان کی بیٹی جیسے ان کی آنکھوں کا تارا اور دل کی ٹھنڈک ہے ویسے ہی پرائے گھر جا کر خوش رہے گی۔مگر کاتبِ تقدیر کا قلم کیا لکھ چکا وہ اس سے بے خبر رہتے۔

رفیق میاں کے ساتھ ہی سب مہماں بیٹھک میں بیٹھے تھے ،سعادت علی اس کی والدہ اور چار سالہ غازیہ ۔کچھ دیر بعد اماں اسے بلانے آئیں وہ جھجکتی ہوئی اندر آئی ہولے سے سلام کر کے اماں کے پاس بیٹھنے لگی تو اس کی ہونے والی ساس نے بہت محبت سے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا انہیں یہ سادہ سی لڑکی بہت بھائی۔سعادت علی نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا جھکی ہوئی آنکھیں ۔لمبے سیاہ کمر سے نیچے تک لہراتے بالوں نے گویا اسے سحر میں جکڑ لیا اس نے کبھی کسی کے اتنے لمبے بال نہ دیکھے تھے اس کی نظروں میں ستائش تھی۔

پاپا یہ تون ہیں ؟غازیہ نے اسے دیکھتے ہوئے توتلی زنان میں پوچھا ۔اس نے ایک نظر اس بچی پہ ڈالی بہت معصوم بچی تھی خوبصورت سفید فراک میں سفید پونیاں ہلاتھ ہوئے باپ کی گود میں بیٹھی اپنا ننھا سا ہاتھ باپ کے گال پہ رکھے پوچھ رہی تھی سعادت علی گڑبڑا گیا ۔میری جاں یہ تمھاری مما ہیں ۔بڑی بی نے بہت لاڈ سے بیلا کے سر پہ ہاتھ رکھ کے جواب دیا۔اماں ابا نے گھبرا کر بیلا کا دیکھا مگر وہاں کوئی تاثر نہ پا کر مطمئن ہو کر ایک دوجے کو دیکھتے ہوئے آنکھوں ہی آنکھوں میں تسلی دی ۔گویا ایک مرحلہ حل ہو گیا ۔بات پکی ہو گئی ایک ماہ بعد شادی ٹہرا دی گئی۔

Zard Patty

Zard Patty

وقت کم تھا اماں کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے ساتھ وہ ابا کے بھی پھلائے دے رہی تھی ۔آہے آئے آپ دفتر سے چھٹی کیوں نہیں لے لیتے ،سامان سے لدی پسینے میں شرابور ہانپتی کانپتی آ کے وہ چارپائی پہ ڈھیر ہوگئیں احمد علی جو ابھی آفس سے آئے تھے ان کی فرمائش پہ ہنس دئیے اچھا بھئی کل دیتا ہوں درخواست۔ اماں اسے پیٹی میں پڑی رضائیوں کو دھوپ لگوانے کا کہہ کے سعیدہ خالہ کے ساتھ بازار کو چل دیں۔ئس نے سب رضائیاں ایک ایک کر کے چھت پہ جا رکھیں اور سستانے کے لئے بیٹھ گئی۔

اس کی نظر دیوار پہ پڑی جہاں سے اس دن اس نے عاشر کو دیکھنے کے لیے اینٹیں نکالیں تھیں اور اماں کی آمد پہ واپس لگانا بھول گئی آج وہ پندرہ دن کے بعد چھت پہ آئی تھی ۔نا چاہتے ہوئے بھی اس نے دوسری طرف جھانکا مگر سامنے کوئی دکھائی نہ دیا ۔مگر چھت پہ بنے کمرے سے کھٹر پٹر کی آوازیں آ رہی تھیں جیسے کوئی سامان باندھ رہا ہو ۔اس نے دوبارہ نظر ڈالی تو اس کی آنکھوں کے سامنے دو بھوری آنکھیں آ لگیں ادھر عاشر تھا ۔وہ ایک لمحہ گویا منجمد ہو گیا ایک کی آنکھوں میں تحیر تھا تو دوسرے کی میں شرارت ۔سنو آئی لو یو عاشر کی آواز اس کی آنکھوں سے پھوٹتی سنائی دی وہ ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ پائے بس نگاہوں کے تصادم نے فسوں پھونک کے مسمرائز کر دیا۔باقی آئندہ

Iffat Bhatti

Iffat Bhatti

تحریر : عفت بھٹی