ضرب ِ عضب

Zarb-e-Azb

Zarb-e-Azb

تحریر: عاقب شفیق
اُن دنوں کی بات ہے جب صفدر ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ والدین کا اکلوتا بیٹا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ بہت لاڈلا بھی تھا۔ والد ہائی سکول ٹیچر تھے اور اپنے بیٹے کی کوئی خواہش ایسی نہ دیکھ پاتے جو پورے نہ ہو۔ صفدر کے پاس سائیکل بھی تھی۔ وہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی پیش پیش رہتا تھا۔والدین کی صحیح تربیت اور ذہن کی درستگی کا نتیجہ تھا کہ وہ اسلام کو سمجھنے لگا تھا اور محب وطن بھی تھا۔وہ پانچ وقت باجماعت نماز کا اہتمام کرتا اور دوسروں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اور وں کو بھی اس امر کی تلقین کرتا۔

ایک دن صفدر امی کے ساتھ بیٹھ کر سکول کا کام کر رہا تھا کہ ایک کپڑے بیچنے والے خان صاحب پیٹھ پر بڑی ساری کپڑوں سے بھری گٹھڑی لئے ان کے گھر کے سامنے سے گزرے۔ والدہ نے کپڑے لئے اور چھوٹے صاحب نے خان جی کو پانی پیش کیا۔اس دوران صفدر کو پتا چلاکہ خان صاحب کا نام حشمت خان ہے اور دیگر سوالات کا تبادلہ بھی ہوا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کتنے بچے ہیں؟ ان کے بچے کیا کرتے ہیں؟ وہ کتنے عرصہ بعد گھر جاتے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔ ان تمام باتوں نے صفدر اور حشمت خان کے درمیان کی اجنبیت کو ختم کر دیا اور وہ دوست بن گئے۔ حشمت خان نے بتایا کہ گرمیوں میں ہر ماہ پھیری پر آتا ہے۔ اب صفدر ہر ماہ حشمت خان کا انتظار کرتا۔

جب وہ آتا تو اسے گھر کے باہر بٹھا کر کھانا کھلاتا اور چائے بھی پیش کرتا ۔امی جان بیٹے کے غیروں کے ساتھ اس اچھے برتاؤ پر رشک کرتی اور اکثر والد سے بھی ذکر کرتی ۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہاجب صفدر میٹرک کے امتحانات اپنے سکول میں ٹاپ کر کے شہر کے بڑے کالج کی سکالر شپ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ صفدر پڑھائی میں پوری توجہ دیتا اور اپنے اخلاقی اقدار کو تعمیر کرنے میں کامیاب رہا۔ اپنی کلاس میں جو لڑکے پڑھائی میں کمزور پاتا انہیں اپنے کمرے میں بلا کر پڑھاتا اور اپنے ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتا۔جو طلبا کالج فیسیں نہیں دے پاتے ان کی معاشی مدد کرتا ۔ صفدر نے کالج میں ایک تنظیم قائم کی جو بڑی فیملز سے تعلق رکھنے والے طلبا سے اعانت لے کر نادار اور مستحق طلباءتک پہنچاتی تھی۔ یہ تنظیم اپنے پاس پیسے جمع رکھتی تھی اور جب کوئی ایسا لڑکا ان کی نظر میں آئے جو تعلیم اس لئے حاصل نہ کر رہا ہو کہ فیسیں کہاں سے دوں گا؟ کتابوں کا کیا بنے گا؟ میں کالج کی وردی کیسے خریدوں گا؟ ایسے لڑکوں کو صفدر اپنے پاس بلاتا اور اس شرط پر پڑھانے کاوعدہ کرتا کہ جب وہ پڑھ لکھ کر تعلیم مکمل کر لیں گے۔ ڈگریاں حاصل کر لیں گے اور بر سر ِ روزگارہو جائیں گے تو وہ اپنے آس پاس سے ایسے ہی مستحق افراد کو پڑھائیں گے یہ ایک ایسا فعل تھا جو کسی بھی صاحب ِ قلب کے قلب کو چھو جاتا تھا اور وہ نہ صرف اس شرط کو قبول کر کے پڑھنے کی حامی بھر لیتا تھا بلکہ وہ اس تنظیم کا بھی باقاعدہ رکن بن جاتا تھا۔

Pak Army

Pak Army

صفدر کی اس سوچ سے کالج کے دیگر طلباءبھی کافی حیران تھے اور بہت متاثر بھی ہوئے ۔ بہر حال وہ دن بھی آیا کہ کالج میں Annual Dayتھا اور پرنسپل صاحب نے صفدر کے والدین کو سٹیج پر بلا کر پیرنٹس آف دی ائیر کا ایوار تھمایا۔ اس روز جہاں صفدر کی خوشی دیدنی تھی وہیں کالج کے دیگر طلبا اس عظیم انسان سے بچھڑنے کاسو گ منارہے تھے۔ صفدر حضرت خالد بن ولید ؓ کے معرکوں کے واقعات شوق سے پڑھا کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس میں جذبہ جہاد اورشوق ِ شہادت سوار ہوگیا۔ والد کے مشورے سے اس نے ار ض ِ پاک کے تحفظ کی قسم کھائی اور پاکستان کے دفاع کی غرض کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بری فوج میں کمیشن لے کر شمولیت حاصل کی۔ہر لمحہ کفن باندھے تربیت حاصل کرتے وقت وہ یہی سوچتا تھاکہ میرے سامنے دشمن ہے اوراسے چیر کر رکھ دینا میرا مشن۔ تربیت مکمل کر کے جب گھر پہنچا تو والدہ دروازے پر کھڑی منتظر تھی ۔ گھر پہنچتے ہی والدہ نے ماتھا چوما اور تربیت کی تکمیل پرمبارکباد دی۔ صفدر نے بتایا کہ امی جان! میری تربیت مکمل ہوتے ہی بالا حکام نے پہلا مشن ہمارے گوش گزار کرتے ہوئے ہمیں بتایا کہ ایک ہفتے بعد شمالی وزیرستان میں مظلوم اور بے گناہ لوگوں میں چھپے بیرون ممالک کے ایجنٹ اور مسلمانوں کا بھیس چڑھانے والے دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کے ممبران کو جو طالبان کے نام سے خود کو مجاہدین کہہ رہے ہیں ان کے خلاف جہاد کرنا ہے۔

اس عظیم معرکہ کو تاریخ ”ضرب ِ عضب“کے نام سے یاد رکھے گی۔ ماں صفدر کی طرف حیرت سے دیکھنے لگی کہ کیا میرا بیٹا پاکستان کی سرحد کے اندر گولیاں برسائے گا؟ ابھی یہ سوال اُٹھانے ہی والی تھیں کہ دونوں کی نگاہیں گھر سے باہر پڑیں وہاں حشمت خان کپڑوں کی گھٹڑی لئے چلا آ رہا تھا۔ صفدر کے چہرے پر چمک آ گئے اور مسکراتے ہوئے گھر سے باہر نکل کر بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے حشمت خان سے ملا اُسے باہر بٹھایا اور کھانا دیا ۔ آج حشمت کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے اس کا چہرہ بجھا بجھا تھا۔ صفدر نے وجہ پوچھی تو حشمت رونے لگا ۔ امی بھی باہر آ گئیں۔ حشمت خان بولا” آپ لوگ تو جانتا ہے کہ ہم اورکزئی ایجنسی کے سے بھی آگے وزیستان میں رہتا ہے ۔ میرا چھوٹا بھائی کے گھر طالبان نے قبضہ کر لیا ہے اور اسکا چھوٹا بچی سے زبردستی بندوق دکھا کر نکاح کر لیا ہے“ یہ سُن کر صفدر کی امی کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ مزید بتانے لگا ” اُس کے گھر سے اسکو نکال دیا ہے اب وہ میرے گھر میں رہتا ہے۔

ہم طالبان سے لڑ نہیں سکتا ہے کیوں کہ طالبان پھر ہم کو ذبح کر کے ہمارے سر کے ساتھ کھیلتا ہے“ یہ کہتے کہتے وہ زور سے رونے لگا۔” کاش کہ ہمارا مدد کے لئے فوج آ جائے اور ہمارے گھر کو واپس دلا دے۔ ہمارے بچوں کو واپس دلا دے۔ ہمارا بچیوں کو واپس دلا دے ۔ کاش کہ فوج ا ٓ جائے اور ہمارا مدد کرے“یہ سب سن کرصفدر کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ا می بولیں” بیٹا یہ اسلام کے علمبردار ہیں؟اسلام کو غالب لانے کے دعوے دار ہیں۔ مجاہد ہیں تو پھر یہ ایسا گھناؤنا کھیل کیوں کھیل رہے ہیں ہمارے بچوں کے ساتھ اور ہمارے بہنوں کے ساتھ؟؟“ ”امی جان! کیا آپکو یاد ہے آپ مجھے حسن بن صباح کا قصہ سنایا کرتی تھیںبچپن میں کہ وہ خوارج تھے “ صفدر بولا” یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں۔

Hazrat Ali

Hazrat Ali

حضرت علیؓ اور انکی اہلیہؓ کو آمنے سامنے میدان ِ جنگ میں لانے والے یہی خوارج ہی تھے ۔حسن بن صباح 1034میں آیا تھا اور اس نے بھی مسلمانوں کو بہکا کر اور جھوٹی جنت کے جھانسے دے کر اپنی مرضی کے کام جہاد کا نام دے کر کرواتا رہا۔۔۔ امی آپکو تو پتا ہی ہو گا کہ نورالدین زنگی۔ اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف سازشیں اور موت کے پلان بنانے والے خارجی ہی تھے یہ وہ لوگ ہوئے ہیں جو اسلام سے خارج ہوتے ہیں اور فقط اسلام کے نام پر لوگوں کے بہکاتے ہیں۔۔ یہ لوگ اسلام کے نعرے لگاتے ہیںاور مسلمانوں کے ہی خلاف جنگ کا کھلا اعلان کرتے ہیں۔ یہ لوگ نوعمر جوانوں کو استعمال کرتے ہیں انکا برین واش کر کے خود کو بموں سے اُڑا دینے پر امادہ کرتے ہیں کہ جنت میں حوریں ملیں گی اور کثرت سے ملیں گی۔ انکے خلاف جہاد کرنے والوں کے لئے رسول اللہ ﷺ نے چودہ سو سال قبل بڑی بشارتیں دی ہیں۔“

تھوڑے ہی دن گزرے تھے کیپٹن صفدر کو دوسو جوانوں کا دستہ دے کر ایک ٹیکری فتح کرنے کامشن دیا گیا۔ یہ ٹیکری دشمن کے قبضے میں تھی اور اس کا پاک فوج کے پاس ہونا بہت ضروری تھا۔ کیپٹن صفدر جذبہ حب الوطنی اور جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر اپنے لشکر کے قیادت کر رہے تھے انہوں نے بڑی مہارت سے بہت کم جانی نقصان اٹھائے اور وہ ٹیکری فتح کی ۔ وہاں پاکستان کا پرچم لہرایا ۔ پرچم لہرا کرنعرہ تکبیر کی گونج نے دشمن کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہاں سے پندرہ افراد کو لے کر کیپٹن صفدر واپس اپنی یونٹ میں آ رہے تھے کہ دشمن کے سنائپر نے ایک ساتھی کو نشانہ بنایا۔ کیپٹن صفدر نے تمام جوانوں کو پندرہ میٹر دور ایک آڑ کی طرف اشارہ کیا کہ وہاں آڑ لے کر دشمن پر جوابی فائر کرو۔ اور خود زخمی ساتھی کی جانب بھاگے۔ اسے اٹھا کر لا رہے تھے کہ ایک گولی آپ کے سینے کو پار کر گئی۔

آپ نے ہمت نہیں ہاری اور اس زخمی کو آڑ تک پہنچانے ہی والے تھے کہ ایک اور گولی کیپٹن صفدر کے سر پر لگی ۔ آپ شدید زخمی ہو گئے۔ دونوں زخمیوں کو راولپنڈی ایم ایچ ہسپتال پہنچایا گیا ۔ ہسپتال میں جس کمرے میں کیپٹن صفدر تھے اس میں ٹی وی لگی تھی۔ انہوں نے ٹی وی آن کی تو حیران رہ گئے کہ بعض سیاسی جماعتیں فوجی آپریشن کے خلاف مشتعل تھیں کہ بے گناہ لوگوں کی قاتل ہے فوج ۔ کیپٹن ہکے بکے رہ گئے ۔ انہوں نے ٹی وی بند کیا اور لیٹ گئے امی کی کال آئی انہوں نے خیریت دریافت کی۔ جب فون بند ہوا تو فیس بک کھولی۔۔ کیپٹن حیران رہ گئے کہ وہاں پاکستانی عوام فوج کو سپورٹ کرنے کے بجائے فوج کو گالیاں دے رہی ہے۔ کیپٹن بے بسی سے رونے لگے کہ جس ملک کی محبت میں ہم جان تک دینے سے دریغ نہیں کرتے اسی ملک کے باسی ہمیں غدار کہہ رہے ہیں۔

اس دھرتی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

Operation Zarb e  Azb

Operation Zarb e Azb

کیپٹن صفدر کے سرمیں گولی لگی تھی اور دماغ کو کافی نقصان پہنچا تھا۔ ڈاکٹر نے انہیں ذہنی سکون کی تلقین کی تھی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر کیپٹن دوسرے روز اس دوہری اور منافقانہ رویہ کی حامل دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئے۔ ڈاکٹر نے انکی شہادت کی وجہ زخموںکی شدت کے ساتھ ساتھ برین ہیمبریج بھی بتائی۔ ان کو سپرد ِ خاک کرنے کے بعد میری فیس بُک پر کیپٹن صاحب کے آخری سٹیٹس اپ ڈیٹ پر نظر پڑی تو میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہاں لکھا تھا۔ ” حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں؟“

تحریر: عاقب شفیق