کراچی صوبہ ضروری ہے؟؟؟

mahajir

mahajir

کراچی صوبے کی گونج تو ہم ایک مدت سے سنتے چلے آرہے ہیں بلکہ ایک زمانے میں کراچی صوبہ تحریک بھی موجود تھی۔مگر آج اسی سے ملتا جلتا مطالبہ مہاجر صوبے کا سامنے آیا ہے۔جو ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سا لمیت اور مہاجرین کے حقوق کی آواز ہے۔جس کو دبایا نہیں جا سکتا ہے۔اس سے قبل پاکستان میں 22 صوبے بنانے کا بھی غلغلہ اٹھا تھا۔ جس کو جاگیر داروں نے اپنی شکست سمجھ کر سامنے آنے سے ہر ممکن طریقے پر روکا۔ مگر یاد رکھو صوبوںکی آواز کو دبایا گیا تو مشرقی پاکستان کا حال ہم سے چھپا ہوا نہیں ہے۔آج 350کروڑ لوگوں کی آواز کو دیایا نہیں جا سکتا ہے۔سندھ میں جاگیرداروں اور ان کے گماشتے بیورو کریٹ جو ان ہی کی زبان بولنے والے ہیںصوبے کا مطالبہ کر نیوالوں کو بنگالیوں کی طرح گالیاں دیتے ہوے غدار کہہ رہے ہیں ۔جو ان کی گندی زبانوں سے اچھا بھی نہیں لگ رہا ہے۔سندھ کے ایک جاگیردار نے اپن انا کی تسکین کی خاطر رستے بستے پاکستان کو دو لخت کر دیا تھا اور پھر قائد اعظم کے پاکستان کو ٹوڑ کر اس مظلوم مملکت کو نیا پاکستان کہنا شرو ع کر دیا تھا ۔آج پھر ایسے ہی انا پرستوں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یہ مہاجر دیش بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ مجھے 1978کی پنڈی میں ایک بزرگ کی بات آج تک یاد ہے۔میں ان کا لب و لہجہ سن کر سوال کر دیا کہ آپ کراچی کیوں تشریف نہیں لائے؟تو انہوں نے سرد آہ بھر کر جواب دیا بیٹا کراچی تو ہم اس وقت آئیں گے جب کراچی صوبہ بن جائے گا ان ہجرت کرنے والوں کا احساسِ محرومی تو اس وقت بھی تھا۔ایوب خان جو ایک فوجی ڈکٹیٹرتھا، نے ڈھٹائی کے ساتھ کہا تھا کہ مہاجر ہندوستان سے تو پاکستان آگئے ہیں اب ان کے لئے سمندر ہیتو میری سوچ میں ایک وقتی تبدیلی اس وقت کے حالات اور تجربات کے تحت پیدا کر دی تھی۔ہم نے پہلی بار کراچی صوبے کا ذکر ان بزرگ کی زبانی سنا تو مت پوچھئے ہمارے جذبات اس وقت کے حالات کے تحت کیا تھے؟ مگر اندازہ یہ ہوا کہ کراچی صوبے کی سوچ ابتداسے ہی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے۔اس کی کوئی اور وجہ نہیں ہے صرف ان کا احساسِ محرومی ہے۔اس کے بعد بڑی شدومد سے کراچی صوبے کی آوازیںآتی رہیں۔بلکہ کراچی 1972کے اردو سندھی ہنگامے کے بعد تو کراچی صوبے کا نعرہ مسلسل لگایا جاتا رہا تھا،اب اسے چاہے مہاجر صوبے کا نام دے لیں یا کراچی صوبے کا۔ بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ اور سیاست دان مزید پاکستان میں صوبوں کی بات کر رہے ہیں ۔کراچی یا مہاجر صوبہ ان سب کے گلے میں اٹک رہا ہے۔حکمران اور سیاست دان سب ہی کہہ رہے ہیں کہ صوبے لسانیت کی بنیاد پر نہیں بننے چاہیئںکوئی مجھے بتائے کیا سرئکی صوبے کا مطالبہ لسانیت کی بنیاد پر نہیں ہیاور کیا ہزارہ صوبے کا مطالبہ زبان کی بنیاد پر نہیں ہے۔ہم تو سندھ کی تقسیم نظم و نسق کی بنیاد پر اس لئے چاہتے ہیں کہ حکومت اس کے نظم و نسق کو چلانے میں مکمل نام ہے ۔کوئی سسٹم حکومت سندھ سنبھال نہیں پا رہی ہے۔لاایند آرڈر کی کیفیت لے لیں یا جرائم اور قتل و غارتگری کی کیفیت لے لیں عوم کی نیدیں حرام ہو چکی ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ
بانیانِ پاکستان کی اولادوں کے ساتھ یہ تعصب کیا معنی!!!

karachi

karachi

اس بات سے تو سب ہی واقف ہیں کراچی صوبے کی چنگاری بہت عرصے سے دبی ہوئی ہے۔لاکھ اس کو دبایا جائے ایک دن تو اسے شعلہ بنناہی تھا۔مفاد پرست سیاست دانو ںاور نام نہاد قوم پرستوں نے کراچی صوبے کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹیں ڈالیں۔ حالانکہ کراچی میں صوبہ بنائے جانے کی تمام خصوصیات موجود ہیں اور یہ کسی کے حقوق پر ڈاکہ زنی بھی اس لئے نہیں ہے کہ کراچی کی صنعت وتجارت کو اس اسٹیج تک پہنچا والے اہلیانِ کراچی ہی نہیں۔جنہیں 1946میں خود جی ایم سید نے سندھ کی صنعت و تجارت کو سنبھا لنے کی درخوست کی تھی۔آج جب یہ مہاجروں کا لگایا ہوا پودا پھلوں سے لدا تناور درخت بن گیا ہے تو لٹیرے کہتے ہیں لاشیں بچھ جائیں گی مگر ان کو صوبہ بنانے نہیں دیا جائے گا۔ پاکستان کو بر باد کرنے کا منصوبہ بنانے والوں کو یاد رکھناچاہئے بانیانِ پاکستان کی اولادیں اپنے وطن کا دفاع بھی کرنا جانتی ہیں۔اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ کراچی کے باسیوں کے سا تھ ہمیشہ سے ہی امتیازی سلوک ہوتا رہا ہے ۔کوٹہ سسٹم دس سالوں کے لئے لگا یا جاتا ہے تو وہ چالس سال گذر جانے کے با وجود بھی ختم نہیں کیا جاتا ہے۔اگرکراچی کا رہنے والا، اردو زباں بولنے والا کسی سر کاری دفتر میں اپنے کام کے سلسلے میں چلا جائے تو ایک کمتر درجے کے دفتری سے لیکر اعلی افسر تک زبان کی بنیادکی وہ ہتک کرتا ہے کہ پھر اسے اپنے آقا جیسے کلرک کے پاس جا نے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ہے۔جن کے ساتھ یہ معاملات ہوتے ہیں وہ خوب بہتر جانتے ہیں ۔اس پر نہ تو ہمارے سیاسی لوگوں کو آواز اٹھانے کی توفیق ہوتی ہے اور نہ ہی حکومت وقت اس زیادتی سے کراچی والوں کونجات دلانا چاہتی ہے۔بس تعصبات کا ایک بازار ہے جس کو پاکستان کے دشمنوں نے گرم کیا ہواہے۔

ہم تین کروڑ مہاجروں ،سندھ میں پیدا ہونے والوں کو بھی نام نہاد قوم پرستوں میںعجیب عجیب ناموں سے پکارا ہے۔کوئی ہمیں مکڑ کہتا ہے تو کوئی تلِیئر،کوئی مٹروا کہتا ہے تو کوئی بھیئے!!! مگراس پر بھی صبر کر کے خون کا گھونٹ اتار جاتے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ سندھ کسی کے باپ کی جاگیر اس وجہ سے نہیں ہے کہ سندھ کے تمام باسی اور دعویدار وں میں سے اکثر یت سندھ کے اصل باشندے ہی نہیں ہیں کوئی یہاں ہزار سال پہلے آکر آباد ہوا ہے تو کوئی پانچ سو سال پہلے تو کوئی ساٹھ پینسٹھ سال قبل یہاں پر آکر آباد ہوا ہے۔سن آف سوائل وہ تمام لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اس دھرتی پر جنم لیا ہو۔مگر اردو بولنے والے اس سے مسنتثنی سمجھے جاتے ہیںسندھ دھرتی کے سب سے بڑے دعویدار سائیں جی ایم سید بھی بنیادی طور پر عرب سے تعلق کی بنا پر ہی اپنے نام کے ساتھ سید لگاتے تھے۔ مگر پھر بھی وہ سندھ کی ملکیت کے دعویدا رتو ضرور تھے تو ہم کیوں نہیں؟؟؟

22 مئی 1948کوکراچی کو پاکستان کا دارالحکومت بنانے کی غرض سے باقاعدہ قومی اسمبلی نے ایک قرار داد بھاری اکثریت سے منظور کی ،تو اس وقت بھی ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے اس قرار داد کی شدت کے ساتھ مخالفت کی تھی۔تاہم اس وقت سندھ اسمبلی نے بھی کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی قرارداد منظور کرنے میں کوئی وقت نہیں لگایا اس طرح سندھ کو مرکزی کا حصہ بنا دیا گیا ۔یہ حیثیت ایک مدت تک یعنی اگست 1960تک بر قرار رہی۔مگر پھرکراچی کے لوگوں کو دشمن سمجھنے والے ایک فوجی آمرنے کراچی وا لو ں کی دشمنی نبھاتے ہوے یہاں کی ترقی کو ہمیشہ کے لئے پابند حالات کر دیا اورکراچی کی قسمت کا ظالمانہ فیصلہ کر دیا۔جس سے سندھ کے تمام ہی لوگوں کا نقصان ہوا،اس نقصان پر ان سب کی زبانیں گنگ تھیں۔کراچی ہر لحاظ سے صوبہ بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر ایک مائنڈ سیٹ ہے جوجو انگریزوں کی غلامی کا نمائندہ ہے ۔وہ سندھ میں صوبے بنانے کا سب سے بڑا مخالف اس لئے ہے کہ ان کے ذہنوں میں یہ بات موجود ہے کہ خدا نا خواستہ پاکستان کوکسی طرح توڑ دیا گیا تو ان کی حکمرانی کھٹائی میں پڑ جائے گی ۔ یہ بات ہمارے حکمرانوں کو ذہن نشین ہونا چاہئے کہ جب تک ہم ملک میں نئے صوبے نہیں بنائیں گے اس وقت تک ملک میں علیحدگی کی آوازیں بھی شد ومد سے اٹھتی رہیں گی۔اگر قیام پاکستان کے وقت کے ڈیویژنوںکو صوبوں کا درجہ دیدیا جائے تو بہت سے لوگوں کا احساس محرومی بھی خود بخود ختم ہوجا ئے گا اور علیحدگی پسند بھی اپنی موت آپ مر جائیں گے، اور کوئی اعتراض بھی سامنے نہیں آئے گا۔

hindustan map 1940

hindustan map 1940

ہندستان آزادی کے وقت صرف 11صوبوں پر مشتمل ملک تھا۔جس میں 1956میں تبدیلی کر کے 28صوبوں پر مشتمل ریاست بنا دیا گیاہے۔ جس میںمزید 9،ایسے صوبے بھی ہیں جو وفاق کے کنٹرول میں ہیں۔اس کے باوجود ملک میں کوئی انتشار یا علاقائی تعصب ابھر نہ سکا اور ملک بحسن و خوبی چل رہا ہے۔جب ہندوستان 11سے 37صوبوںمیں بٹ کر مستحکم ملک ہے۔ پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے لئے جو اقدام بھی کئے جاتے ہیں انکی یہ لوگ دل کھول کر مخالفت پر آمادہ رہتے۔وہ چاہے پانی کا مسئلہ ہو یا عوامی ترقی کا مسئلہ ہو بعض کوتاہ ذہن تو یہاں تک کہتے ہوے پائے گئے ہیں کہ اگر ہم نے سندھ میں نئے صوبوں کی بات کی تو ہمارا حشر بھی مستقبل میں مشرقی پاکستان کے بہاریوں جیسا ہو جائے گا۔ گویا میرے منہ میں خاک یہ لوگ اس وقت کے منتظر ہیں جب پاکستان کا نام و نشان ختم کر کے سندھوں دیش قائم کر دیا جائے گا۔حالانکہ ایم کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ جس میں انہوں نے کہا تھاکہ پاکستان میں مزید صوبے بنا دیئے جائیں تو پاکستان مضبوط ہوگادوسری جانب عمران خان نے بھی کراچی صوبے کی حمایت کی تھی۔ شہباز شریف نے بھی کراچی صوبے کی بات تو کی تھی مگر وہ چند گھنٹے بھی  برداشت نہ کر سکے جس کے نتیجے میں کچھ گھنٹوں کے بعد ہی انہوں نے اپنے بیان سے رجوع کر لیا تھااور آج نوازشریف بھی کھل کر سامنے نہیں آرہے ہیں۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ جب تک وطنِ عزیز میں مزید نئے صوبے نہیں بن جاتے اس وقت تک یہاںکی سیاست میں سدھار لایا ہی نہیں جا سکتا ہے اور پاکستان کی یکجہتی کے دشمن موقعے کی تاک میں بیٹھے ہیں۔جو پاکستانی عوام کو ریلیف دینا ہی نہیں چاہتے ہیں۔یہی جاگیر دار پاکستان میں مزید صوبوں کی مخالفت بھی کر رہے ہیں۔کیونکہ ان کی راج دہانیوں میں اس عمل سے دراڑیں پڑ جائیںگی۔ تو ان کا راج سنگھا سنگ سونا پڑ کر بکھر جائے گا ۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان میں کرپشن کی ایک بڑی وجہ صوبائی حکمرانوں کا کرپشن بھی ہے۔ جو طاقت کے بل پر الیکشن کے نتائج اپنے حق میں کرانے کے بعد مختلف وزارتوں اور سفارتوں کے ذریعے جی بھر کر لوٹ مار کرتے ہیں۔بقیہ وقت میں اپنے پریوار کی گرومنگ کر تے رہتے ہیں۔تاکہ کل ان کے بعد ان کا پرنس راج سنگھا سنگ سنبھال سکے۔

Pakistan flag

Pakistan flag

حال ہی میں وزیر اعظم نے نا صرف سرائکی صوبے کا شوشہ چھوڑ ابلکہ اس کو اسمبلی میں بھی لے گئے۔یہ متضاد سوچوں کے لوگ اس ملک کو پنپنے دینا نہیں چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنے تضادات ختم کر کر کے خالص پاکستان کی سوچ پیدا کرنا ہوگی تاکہ ہم دنیا میں عزت و وقارکی زندگی جی سکیں۔ پورے پاکستان میں مزید صوبو ں کے مطالبات شدت کے ساتھ کیئے جا رہے ہیں مگر مقتدر ایوانوںکے ایک مائنڈ سیٹ نے پورے سسٹم کو تباہی کی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔یہاں ہم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ کراچی یا مہاجرصوبہ کیوں ضروری ہے؟اس سوال کا جواب چند بنیادی حقائق دیکھ لینے کے بعد قائرین خود فیصلہ دیں۔
1۔کوٹہ سسٹم جو دس سالوں کے لئے نافذکیا گیا تھا آج چالیس سالوں کے بعد بھی اردو بولنے والوں کو غلام بنانے کے لئے جاری ہے۔
-2جب ہم سندھ کے کسی سرکاری ادارے مثلاسندھ سیکریٹریٹ میں جاتے ہیں تو اردو بولنے والوں کی شکلیں دیکھنے کو ترس جاتے ہیں اور پھر ان کے رویوں سے جو تکلیف ہوتی ہے وہ الگ ہے۔
3۔جب اردو بولنے والے ان متعصب سرکاری اہلکاروں کے پاس اپنا کوئی جائزکام لیکر جاتے ہیں تو ایک تو ان کا رویہ اردو بولنے والوں کے ساتھ انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ دوسر ے جائز کام کی بھی اتنی بھاری رشوت طلب کی جاتی ہے کہ کام کروانے والا خودکشی کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔اور پھر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ رشوت کی بھاری رقم وصول کر لینے کے بعد بھی صاحب بہادر مہینوں اپنے دفتر کے چکر لگواتے ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ اگر آپنے نے صاحب بہادر کی کہیں کمپلینٹ کردی تو آپ زندگی بھر اپنا جائز کام بھی کروا نہ سکیںگے جس کی مثال میں خود ذاتی طور پر بھی ہوں
4۔ایک مرتبہ ہمارے دماغ میں بھی کیڑا کاٹاکہ کوئی یونیور سٹی قائم کرلیں۔ہم معلومات حاصل کرنے کی غرض سے سندھ سیکریٹریٹ کے بیرک میں قائم اس ادارے میںچلے گئے جو یونیورسٹیز کی رجسٹریشن کرتا ہے۔جہاں ایک انتہائی کرپٹ ریٹائرڈ سندھ کے متصاصب صاحب براجمان ہیں ۔انہوں نے میری شکل دیکھتے ہی انتہائی بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔ میں یونیورسٹی کی معلومات تو حاصل کرنا بھول گیا موصوف کے روئیے پر سر پیٹنے لگا ۔یہ رویئے ہمارے ساتھ ان لوگوں کے ہیں جنہیں ہم نے بیس لاکھ جانوں کی قربانیاں دے کر یہ وطن حاصل کر کے دیا اور آج بانیاں پاکستان کی اولادوں کے ساتھ جو پیدا بھی سندھ میں ہوئیں نام نہاد سنز آف سوائل کا رویہ یہ ہے!!!
5۔کل تک کراچی سے پاکستان کی کریم نکلتی تھی جب تک ان پر کوٹا سسٹم نا تھا۔ مگر آج کراچی سے تلچھٹ کے علاوہ کچھ پیدا ہونے دیا ہی نہیں جاتا ہے۔ یہاں کے تعلیمی نظام کو بر باد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔
6۔ہمارے بچے ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر ملازمت کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں اور کوئی سفارشی کسی گاں سے نکل کر آتا ہے وہ قابلیت نہ ہونے کے باوجود بھی بغیر کسی جدوجہد کے ملازمت کے اعلی مقام پر بیٹھا دیا جات ہے۔ یہ اور اسی قسم کے سینکڑوں روئیے ہیں جو لوگوں کو اپنے حقوق چھین لینے کی ترغیب دے رہے ہیں اور مہاجر صوبے کا نعرہ لگانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ پورے پاکستان کو مقامی آقاں کی غلامیوں سے چھٹکارا دلانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان میں مزید صوبوں کا جال پھیلا دیا جائے تاکہ اس کی معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ان سیاسی بھوتوںاور انگریز کے غلاموں سے یہ قوم نجات حاصل کر سکے۔

تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید
shabbir4khurshid@gmail.com