ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے

John  Elia

John Elia

ابھی فرمان آیا ہے وہاں سے
کہ ہٹ جائوں میں اپنے درمیاں سے

یہاں جو ہے تنفس ہی میں گم ہے
پرندے اڑ رہے ہیں شاخِ جاں سے

دریچہ باز ہے یادوں کا اور میں
ہوا سنتا ہوں پیڑوں کی زباں سے

تھا اب تک معرکہ باہر کا درپیش
ابھی تو گھر بھی جانا ہے یہاں سے

فلاں سے تھی غزل بہتر فلاں کی
فلاں کے زخم اچھے تھے فلاں سے

خبر کیا دوں میں شہرِ رفتگاں کی
کوئی لوٹے بھی شہرِ رفتگاں سے

یہی انجام کیا تجھ کو ہوس تھا
کوئی پوچھے تو میرِ داستاں سے

جون ایلیا