اس گلی کا نشاں ملے نہ ملے

mile na mile

mile na mile

اس گلی کا نشاں ملے نہ ملے
پھر سے وہ جان جاں ملے نہ ملے

نین گویا، تھی مہر ہونٹوں پر
پیار کا وہ سماں ملے نہ ملے

خود کو ہم حالِ دل سنا ڈالیں
کیا خبر رازداں ملے نہ ملے

وصل کے راز اس پہ لکھ ڈالو
پھر یہ آبِ رواں ملے نہ ملے

مت جدا کرنا اس کو آنکھوں سے
خواب کا پھر دھواں ملے نہ ملے

فاخرہ بتول