امت ِمسلمہ کا نوحہ

burma

burma

یہ اپریل2012کی بات ہے،جنوبی ایشیا میں واقع زرخیز ترین سرزمین برما کی سب سے بڑی مسلم ریاست ارکان (ریکھائن)میں کسی بااثربدھ بھکشو کے ہاں دو لڑکیوں نے اسلام قبول کیا،ان کا یہ اقدام پورے گھرانے،پورے قبیلے اور برادری کے خلاف تھا،اسی وجہ سے ان دونوں کو مگھوں کی طرف سے ڈرایا،دھمکایا اور للکارا گیا،ان پر ان کی پوری کمیونٹی نے اسلام قبول کرنے پر ظلم و زیادتی کا نشانہ بنایا،لیکن یہ ٹس سے مس نہ ہوئیں،ایک بدھسٹ کے گھر میں انہی کی دو بیٹیوں کا اسلام قبول کرنا بڑا دل گردہ کاکام تھا،لیکن اب جب وہ دائرہ ٔ اسلام میں آچکیں تو اب اس سے سرتابی ان کے لیے ممکن نہ تھی۔

اس لیے انہوں نے روگردانی سے یکسر انکار کردیا،یہ انکاران وحشی نما مگھوںلیے ایک بہت بڑا دھچکا تھا،یہ ان کی برادری کی ناک پہ حملہ تھا،پھران کا یہ عمل اسلام دشمن بدھسٹوں کو کیسے ہضم ہوسکتا تھا؟ان دونوں کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا،انہیں پریشرائزڈ کیا گیا،ہراساں کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی ،لیکن ان کو مذہب پہ واپسی کے لیے کوئی بھی حربہ کارگر نہ گزرا ،ان کی ساری کوششیں لاحاصل رہیں،ان کے اند ہی اندرغصہ،نفرت اور تعصب کا لاوا پکتا رہا،بالآخراپنے تمام تر عناد کا بدلہ لینے کے لیے برما کے مسلم اکثریتی صوبہ ارکان میں غیرمسلم شرپسند عناصر نے ایک مضبوط پلاننگ کے تحت مسلم نسل کشی کا منصوبہ بنایا،سب سے پہلے وہاں کے انتہا پسندمگھوںنے ان دونوں لڑکیوں کو قتل کرواکے اس کا الزام مسلمانوں کے سر تھوپ دیا،اس کے بعد انہی نومسلم لڑکیوں کے ساتھ جبری زیادتی اور پھر قتل کی جھوٹی خبر کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کیا،اس سلسلے میں پمفلٹس تقسیم کیے گئے،جس کے ذریعہ اشتعال انگیزی میں بے انتہا اضافہ ہوااور یوں مسلمانوں کے خلاف قتلِ عام کی راہ ہموار ہوئی۔

اس کی ابتدا 2جون2012کومسلمانوں کی ایک بس میں حملہ سے ہوئی،اس بس میں اکثر تبلیغی جماعت سے وابستہ افراد سوار تھے،یہ بس برما کے دارالحکومت رنگون سے ارکان کے ضلع ”ٹائونگ گوک”کی طرف اپنے ایک تبلیغی سفر کے سلسلے میںرواں دواںتھی،ابھی اس بس نے ارکان (ریکھائن)کے شہر”ٹائونگ گوک”میں قدم رنجہ کیا ہی تھا کہ بودھ بلوائیوں نے بغدوں،تلواروں اور خنجروں کے ساتھ اس بس پہ حملہ کرکے تبلیغی جماعت سے وابستہ10 افراد کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا،جبکہ 25سے زائد مسافروںکو شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا۔

جب انہیں انتہائی سیریس کنڈیشن میںہسپتال پہنچایا گیا تو انہیں ادویات کی عدم دستیابی کا کہہ کر علاج کی سہولیات فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا، مسافر بس میں حملہ سے قبل بدھ بھکشوئوں کے ایک گروپ نے پولیس اسٹیشن کے سامنے لڑکیوں کے قتل کے خلاف احتجاج کا ڈرامہ رچاکرتھانہ کا گھیرائوبھی کررکھا تھا،تاکہ پولیس جائے وقوعہ تک نہ پہنچ سکے،اس کے بعد پولیس نے اس واقعہ کی رپورٹ درج کرلی تھی تاہم اب تک کسی بھی نامزد ملزم کو گرفتار نہیں کیا جاسکا،اس کے بعد جمعہ کے دن 8جون کو مسلمانوں نے احتجاجا اپنی دکانیں بند رکھیں اور اس دن شہدأ کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام کیا گیا،لیکن اسی دن جب ارکان کے مسلمان جمعہ کی عبادات کی ادائیگی میں مصروف تھے کہ شرپسند مگھوں نے نمازیوں پہ دھاوا بول دیا،جس میں کئی مسلمانوں کو شہید اور زخمی کیا گیا۔

muslim girls

muslim girls

اس طرح منظم انداز میں حالیہ فسادات نے جنم لیا،یہ سلسلہ اب تک جاری ہے بلکہ اس میں زور و شور کے ساتھ مزید اضافہ ہوگیا ہے،اب جو کچھ وہاں ہورہا ہے،وہ سب کچھ حکومت کی نگرانی بلکہ ایما ٔپر ہورہا ہے، 3جون کو برپا ہونے والے ان حادثات کے بہانے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ کرکے مسلمانوں کو گھروں میں محبوس رکھا گیا۔

ایمرجنسی لگاکر سرچ آپریشن کیا گیا،اس دوران مگھوں کو علاج معالجہ اور اشیأ خورد ونوش بآسانی دستیاب جبکہ مسلمان جسمِ خاکی اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بھی خوراک و علاج کی سہولتوںاور پانی کی بوند تک کو ترس گئے،جس کی وجہ سے پہلے سے ہی جان بہ لب افرادایڑیاں رگڑ رگڑکراپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے،غذائی بحران کو جنم دینے کے لیے مسلمانوں کو ہر قسم کی کاشت سے روک دیا گیا،جوروستم کی اس داستان کو عالمی میڈیا سے دور رکھنے کے لیے موبائل فون استعمال کرنے پہ10سال قید اور25لاکھ جرمانہ عائد کیا گیا،جبکہ یہ امتیازی سلوک صر ف مسلمانوں کے ساتھ ہی روا رکھا گیا،اس کے برعکس مگھوں کو اس کی کھلی چھوٹ رہی،ابتدائی 10سے15دنوں میں مختلف علاقوں کے 20ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔

نمازِ جمعہ کی تقاریرسمیت مسلمانوں کے ہر قسم کے اجتماعات پر مکمل پابندی عائد کردی گئی،برمی فوج نے مسلم مَردوں کو مشاورت کے بہانے بلواکر عقوبت خانوں میںپھنکوادئیے،اب تک پانچ ہزار سے زائداعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان نوجوان لاپتہ ہیں،جن گھروں سے مَردوں کو اٹھوایاگیا،انہی گھروں میں گھس کر انہوں نے وحشیانہ انداز میں خواتین کے ساتھ زیادتی بھی کی،مقیدمسلمانوں کے ساتھ بھی عجیب و غریب ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں،پیاس کی شدت سے پانی کو ترسنے والوں کو پیشاب پلایا جاتا ہے،گرفتا ر نوجوانوں کو چھڑانے کے لیے حکومت کی طرف سے فی کس 60سے70لاکھ بھتہ مانگا جارہا ہے،بعض علاقوں میں مسلمانوں کی پوری پوری بستیاںبھی نذرِ آتش کردی گئیں،ائمہ مساجد اور علماء کرام کو ہراساں کیاگیا،مساجد اور مدارس شہید کیے گئے،مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا،ان کی دکانوں کو لوٹ لیا گیا،ان سے ان کے گھریلو سازوسامان بھی چھین لیے گئے،مسلمان طلبہ و طالبات کو اسکولز اور تعلیمی اداروں میں جانے سے روک دیا گیا،ان کی زمینیں غصب کرلیں،ذرائع ابلاغ کو بھی ان کی کوریج سے روکاگیا۔

تاحال وہاں صورتحال انتہائی ناگفتہ بہ ہے ،جمہوریت کی خاطر جہدِ مسلسل پر نوبل پرائزڈبرما کی اپوزیشن لیڈر آنگ سان سوچی بھی انہیں فسادی قرار دے کراپنے وطن سے جلاوطن کروانا چاہتی ہے،حالانکہ یہ وہی سوچی ہے،جو تقریبا ربع صدی بعد مسلمانوں ہی کے ووٹ سے دوبارہ اپنی شناخت بناپائی ہے،اس کے علاوہ اب تک حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل جار ی ہے ، عالمی میڈیا میں برما کی غیرمسلم حکومت نے جواطلاعات فراہم کیں ،ان میں ان کا کہنا تھا کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے مسلم ٹیرارسٹ ارکان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو ہوا دینے کے لیے فسادات کا سہارالے رہے ہیں،پہلے تو یہ ایشو میڈیا کی تیزترین نگاہ سے اوجھل رہا،اب جب بات آن ائیر ہوئی تو وہ بھی90 ڈگری برعکس!برما میں مسلمانوں پہ ہونے مظالم کی یہ کہانی آج کی داستان نہیں !بلکہ 60سال کے عرصہ میں یہاں کے مسلمان پانچ بڑے خونی فسادات سے نبرد آزما ہوئے،اس دھرتی پہ آئے روز مسلمانوں اور وہاں کی دیگر غیر مسلم طاقتوںکے درمیان چھوٹے موٹے حادثات تو رونما ہوتے ہی رہتے ہیں،لیکن پانچ بڑے فسادات میں اب تک تین لاکھ سے زائد مسلمان تہہ تیغ کیے گئے جبکہ 15لاکھ افراد بے آسرا ہوئے۔

Muslim

Muslim

دوسری جنگِ عظیم کے دوران1941میں ارکان کے ضلع اکیاب میں بدھسٹوں نے ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی،پھر اسی تنظیم کے تحت مگھوں نے 26مارچ1942کو ارکان میں بسنے والے روہنگیا مسلمانوں کا قتل ِ عام شروع کیا،یہ دہشت گردی تین مہینے تک جاری رہی،اس دوران مارچ 1942سے جون1942تک ڈیڑھ لاکھ مسلمان شہید جبکہ پانچ لاکھ مسلمان بے آسرا ہوئے،دوسری بار 1950میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوئی،اس میں بھی ہزاروں مسلمان لقمہ ٔ اجل بنے،یہ وہ زمانہ تھا،جب جنوبی ایشیا میں پاکستان کے نام پر ایک نئی اسلامی ریاست وجود میں آچکی تھی،یہ ملک اس وقت مسلمانوں کی امیدوں کا مرکز بن کرابھررہا تھا،چنانچہ جہاں دنیا بھر سے مسلمان اس پاک سرزمین کی طرف ہجرت کرنا شروع ہوئے وہیں ارکان کے بے بس مظلوم مسلمانوں نے اپنے مغرب میں واقع جناح کے مشرقی پاکستان کی طرف رختِ سفر باندھا۔

تیسری دفعہ1978میں برما کی غیرمسلم فوجی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف خونی آپریشن کیا،جس کے نتیجہ میں انہوں نے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور پانچ لاکھ سے زائد باشندوں کواپنی ہی سرزمین سے بے دخل کرکے بھوٹان،نیپال اور بھارت سے انہی بدھسٹوں کا آباد کرایا،1991میں چوتھی دفعہ یہاں فسادات پھوٹ پڑے،اس کے سبب بھی ہزاروں مسلمان ان ظالم مگھوں کے ظلم و ستم کے ہاتھوں چل بسنے والے اپنے آبائواجداد کے پاس چل دئیے،اسی وحشیانہ بربریت کے نتیجہ میں ساڑھے تین لاکھ برمی مسلمانوں کو اپنے دیس کو الوداع کہنا پڑا،اب کی بار جلاوطن کیے جانے والے مسلمانوں نے اپنے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کو” جناح کا پاکستان” سمجھ کر ہجرت کی،لیکن چونکہ اب وہ مجیب کا ”شوناربنگلہ”بن چکا تھا،اس لیے یہ مجبور،بے بس اور معتوب مسلمان آج بھی بنگلہ دیش کے ساحلی شہر ٹیکناف اور کاکس بازا ر کے ریفیوجی کیمپس میں ننگ دھڑنگ،بھوک وپیاس اور انتہائی کسمپرسی کے عالم میں زیست کے بے رحم ایام بِتا رہے ہیں،انہیں اب یہ مظلوم مسلمان بنگلہ دیش کی ہندو نواز حکومت کے زیرِ عتاب ہیں،اس کے بعد اب حالیہ فسادات ہیں،جن میں اب تک موصولہ اطلاعات کے مطابق 30ہزار سے زائد مسلمانوں کوقتل کیا گیا۔

سینکڑوں بچوں کو اغوا کیا گیا،نوجوانوں کو غائب کرکے زنداں خانہ میں ڈالاگیا،عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی،زخمیوں کے علاج معالجہ کے لیے کوئی سہولت میسر نہیں،دو ائمہ کرام کو بے رحمی کے ساتھ ذبح کیا گیا، اب تو ان راسخ العقیدہ مسلمانوں کو مرتد بنانے کی سازش بھی ہورہی ہے،ارکان میں90فیصد مسلمان جبکہ 10فیصد دیگر مذاہب کے پیروکار بستے ہیں، اس صوبہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود مسلمان پِس رہے ہیں،سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ قتلِ عام بے نقاب ہونے کے بعدنیویارک سے برسلز، اسٹاک ہوم سے فرینکفرٹ اورکوالالمپور سے جکارتہ تک برما کی بدھسٹ حکومت ،اقوامِ متحدہ اورعالمی طاقتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوا،کراچی میں اظہارِ یکجہتی ریلیزنکالی گئیں۔

Protest

Protest

لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے سامنے دردمند مسلمانوں نے دھرنا دیا لیکن اب تک مقامی ہو یا عالمی،ہر میڈیا گروپ نے اس کو بلیک آوٹ کیا ہواہے،ستم بالائے ستم کسی بھی اسلامی ملک کی منسٹری آف فارن افئیرزکی طرف سے کوئی رقعہ تک جاری نہیں ہوا،حالانکہ برما کی حکومت ہر اعتبار سے انتہائی کمزور ہے،اگر چند اسلامی ممالک کی طرف سے مسلمانوں پر اس ظلم و بربریت پر تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا تو یہ حکومت مسلمانوں کی نسل کشی سے باز آجاتی ، کیوں کہ حالیہ انتخابات کے بعد سے وہاں جمہوری ارتقاء کا عمل شروع ہوچکا ہے،مگر مسلم حکمرانوں کو اس کی فرصت کہاں ؟یہ تو المیہ ہے ہی کہ سارا عالمِ اسلام آج زیرِ عتاب ہے لیکن اسلامی دنیا کے حکمرانوں کی یہ مجرمانہ خاموشی ہی تو امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا نوحہ ہے۔تحریر : محمد زاہر نورالبشر

zahir.1991@yahoo.com

walks in front of burning houses during fighting

walks in front of burning houses during fighting