انبیاء علیہم السلام کا توکل اور مشاہدہ

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا توکل
ایک روایت میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مدین سے مصر کیطرف واپس لوٹ رہے تھے تو راستے میں آپکو جنگل میں ایک طرف آگ نظر آئی۔ آپ علیہ السلام نے اپنی بیوی ( جو کہ بیمار تھیں) سے فرمایا کہ تم یہاں بیٹھو میں تمہارے لیے آگ لے آؤں۔

جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ تو ایک درخت تھا اور وہاں اللہ کے انوار و تجلیات جلوہ گر تھے جن کو آپ نے آگ سمجھا تھا۔ اس درخت سے آواز آئی۔” انی انا اللہ ” ترجمہ: موسیٰ میں تیرا رب ہوں۔

عرض کی یااللہ! میرے لیے کیا حکم ہے؟ تو حکم آیا، اے موسیٰ!ً قوم فرعون کیطرف جاؤ اور جا کے تبلیغ کرو۔ آپ واپس ہونے لگے جہاں بیوی کو چھوڑ کے آئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو پھر آواز آئی میں نے کہا ہے جا کے تبلیغ کرو تمہیں بیوی کی فکر پڑ گئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر عرض کی یا اللہ! میری بیوی کی نگرانی کون کریگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ فرمایا اے موسیٰ! تجھے بیوی کی فکر کیوں ہے کیا تو مجھے رازق اور خالق نہیں مانتا؟ عرض کی یا اللہ! مانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو فرمایا جب تم میرے کام کیلئے جا رہے ہو تو تیرے کام میں خود کر لوں گا۔ یہ راز ہے۔

دین دار لوگ، علم دین حاصل کرنے والے لوگ، دین کی خدمت کرنے والے لوگ اس راز کو پا جائیں تو ان سے حرص اور ہوس ختم ہو جاتی ہے۔ اگر وہ اس راز کو نہ پائیں تو دنیا میں ذلیل و خوار ہوتے پھرتے ہیں۔

stick of Hazrat moosa

stick of Hazrat moosa

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان کلی دینے کیلئے فرمایا کہ اے موسیٰ! یہ تیرے سامنے ایک پتھر ہے اس پر عصا مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موسیٰ علیہ السلام نے عصا مارا تو پتھر پھٹ گیا اور اسکے اندر سے ایک پتھر نکلا۔ فرمایا اس پر بھی عصا مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دوسرے پتھر پر بھی عصا مارا تو وہ پتھر بھی پھٹ گیا اور اسکے اندر سے ایک تیسرا پتھر نکلا، فرمایا اس تیسرے پتھر پر بھی عصا مار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تیسرے پتھر پر بھی عصا مارا تو وہ بھی پھٹ گیا اور اس تیسرے پتھر کے اندر سے ایک جانور نکلا اور اسکے منہ میں تازہ پتا تھا جو کھا رہا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے کانوں سے فوراً حجابات ہٹا دیے تو آپ نے اس کیڑے کی یہ تسبیح سنی۔
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جو مجھے دیکھتی بھی ہے، میرا کلام سنتی بھی ہے، میرے رہنے کی جگہ جانتی اور پہچانتی ہے اور مجھے کبھی نہیں بھولتی۔

اللہ نے پوچھا اے موسیٰ! یہ بتا کہ اس تیسرے پتھر کے اندر جو جانور ہے اس کو رزق کون دے رہا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عرض کی یااللہ! مجھے اطمینان ہو گیا ہے کہ تو پتھروں اور پہاڑوں کی تہہ میں بھی مخلوق کو رزق دیتا ہے۔

یہ مشاہدہ کرنے کیبعد آپ کے یقین میں اور بھی پختگی آ گئی اور موسیٰ علیہ السلام نے اپنے گھر اور اپنی بیوی کی فکر چھوڑ دی اور واپس بیوی کیطرف نہیں گئے بلکہ سیدھے قوم فرعون کو تبلیغ کرنے کیلئے چلے گئے۔ یہ ہے توکل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا توکل
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے کہ جاؤ اور اپنی بیوی حضرت حاجرہ کو اور اپنے بچے حضرت اسماعیل کو کسی ایسے جنگل میں چھوڑ کے آؤ جہاں قریب کوئی آبادی نہ ہو، پانی نہ ہو، درخت نہ ہو، کھانے پینے کی شے بھی کوئی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے جنگل میں چھوڑ کر واپس آ جاؤ۔

ابراہیم علیہ السلام اپنے بیوی بچے کو وہاں لے آئے جس جگہ آج خانہ کعبہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وادی غیر ذی زرع میں چھوڑ کر واپس ہونے لگے تو حضرت حاجرہ علیہا السلام کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور عرض کی اے میرے سرتاج! ہمیں کس کے حوالے کر کے جا رہے ہو؟

آپکی آنکھوں میں بھی آنسو آئے اور اشارہ کیا کہ اس خدا کے سپرد کر کے جا رہا ہوں جو کسی کی امانت کو ضائع نہیں کرتا۔ حضرت حاجرہ علیہا السلام نے کہا ” اگر اللہ کے سپرد کر رہے ہو پھر ہمیں کوئی فکر نہیں۔

aabe zamzam

aabe zamzam

اس بے مثال توکل کیبعد نہ حاجرہ علیہاالسلام کو فکر رہی نہ ابراہیم علیہ السلام کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ رب نے انکے دل سے فکر نکال دیا۔ پھر جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی تو اللہ نے لق و دق صحرا سے آب زم زم کا چشمہ نکال کے ثابت کر دیا کہ جو میرے ہو جاتے ہیں، میں انکا ہو جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو میری باتیں مانتے ہیں میں انکی بات مانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو میرے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں، میں انکے کام میں مصروف ہوتا ہوں۔

محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مشاہدہ
صاحب تفسیر روح البیان، سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ایک دن میں محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کیساتھ ایک جنگل کیطرف گیا۔ ہم نے دیکھا کہ ایک پرندہ بلند آواز سے کچھ کہہ رہا ہے۔

یہ سن کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
” اے انس!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بتاؤ یہ پرندہ کیا کہہ رہا ہے؟
میں نے عرض کی یہ تو اللہ اور اسکا رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے ہیں۔
فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ رہا ہے۔
” یعنی اے اللہ تو نے مجھے آنکھیں نہیں دیں اور اندھا پیدا کیا ہے، اب میں بھوکا ہوں، مجھے کھانا دے!

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابھی ہم وہیں کھڑے تھے کہ ایک پرندہ اڑتا ہوا آیا اور خودبخود اسکے منہ میں چلا گیا جسے وہ پرندہ کھا گیا۔
اسکے بعد پھر وہ پرندہ زور زور سے بولنے لگا۔

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے پھر پوچھا، اے انس! جانتے ہو یہ پرندہ کیا کہہ رہا ہے؟
میں نے عرض کی اللہ اور اسکا رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی جانتے ہیں۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کہہ رہا ہے کہ
” سب تعریفوں کے لائق وہی اللہ ہے جو اپنے پکارنے والے کو کبھی نہیں بھولتا۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس پرندے نے یوں کہا۔
” جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اسکے لیے کافی ہوتا ہے”۔

درس: حضرت سعید احمد مجددی