انکل انیس

باہر کے شیطان خرابی سی کر جاتے ہیں
ورنہ ہر انسان کی فطرت نوری ہوتی ہے

Lahore Railway Station

Lahore Railway Station

مسز توصیف انور میری دور کی رشتہ دار ہیں، بس نام کا رشتہ ہے البتہ انکے شوہر انور صاحب سے میرا محبت کا گہرا رشتہ ہے۔ انکی پہلی بیوی فوت ہو گئیں تو انہوں نے اپنی بہن کی مدد سے مسز توصیف سے شادی کر لی۔ تب انور صاحب 45 سال کے تھے اور مسز توصیف 25 سال کی۔ اگرچہ مسز توصیف نے شادی سے پہلے یہ بات چھپائی تھی کہ وہ طلاق یافتہ ہیں تاہم کچھ انکی کم عمری نے اور کچھ انور صاحب کی طبعی شرافت نے اس اخفا کو مسئلہ نہیں بننے دیا۔
یہ لگ بھگ بیس برس پہلے کی بات ہے۔ انور صاحب کی پہلی بیوی سے چھوٹی بیٹی اپنی پھوپھی کے ہاں تھی۔ مجھے وہاں یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ نو سال کی بچی کو لاہور انور صاحب کے گھر پہنچا آئوں۔ ٹرین سے رات بھر کا سفر کر کے جب میں لاہور پہنچا تو انور صاحب آفس جا چکے تھے۔ سفر کی تھکن کے باعث میں نہا کر اور ناشتہ کر کے سو گیا۔ پھر پتہ نہیں کیسے میری آنکھ کھلی، لیکن جب میں جاگا تو ڈرائینگ روم سے عجیب سی آوازیں آ رہی تھیں۔ انور صاحب کی بیٹی کسی مہمان کو انکل انیس کہہ رہی تھی۔ انکل انیس مضر تھے کہ بچی باہر سے جا کر اسکنجبین کیلئے لیموں خرید آئے۔ بچی بھی اپنی معصومیت میں کہہ رہی تھی ہاں انکل! میں ابھی جا کر لے آتی ہوں لیکن مسز توصیف بار بار بچی کو باہر جانے سے روک رہی تھی۔ آخر انکی سرگوشی جیسی آواز سنائی دی۔
” انیس! بیوقوفی مت کرو، اندر انور صاحب کا ایک عزیز سویا ہوا ہے۔”

sleeping man

sleeping man

اس سرگوشی کی آواز سن کر میں جان بوجھ کر سویا ہوا بنا رہا حالانکہ میرا پورا وجود جاگ گیا تھا۔ میں جنس کی زندگی کی ایک حقیقت سمجھتا ہوں۔ معاشرتی حدود میں رہ کر اسکے تقاضے پورے ہوں تو زیادہ بہتر ہے لیکن اگر کوئی ان سماجی حدود کو باہمی رضامندی اور خاموشی سے پھلانگتا ہے تو میں اس پر بھی خاموش رہنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ ہر کسی کی اپنی زندگی ہے کوئی جیسے چاہے بسر کرے۔ میں دو دن لاہور رہا۔ اس دوران انکل انیس سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔

میں نے مسز توصیف یا انکل انیس کو ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ مجھے انکے ناجائز مراسم کا علم ہو گیا ہے۔ بعد میں جب کبھی کبھار لاہور جاتا ہوتا، انور صاحب کے گھر پر انکل انیس سے بھی ایک آدھ ملاقات ہو جاتی لیکن چند برسوں کے بعد مجھے یہ حیران کن خبر معلوم ہوئی کہ انور صاحب کے ایک اسکول کی ہیڈ مسٹریس سے دوستانہ مراسم تھے۔ انور صاحب کے گھر پر اس دن کوئی نہیں تھا چنانچہ انور صاحب اور وہ ہیڈ مسٹریس تنہائی کی موج میں دوستانہ مراسم سے آگے، کافی آگے تک چلے گئے۔ انور صاحب زندگی میں پہلی بار گناہ کی لذت سے آشنا ہوئے تھے جبکہ مسز توصیف اس میدان کی تجربہ کار کھلاڑی تھیں۔ انہوں نے ایک ہی جھٹکے میں انور صاحب سے سچ اگلوا لیا اور پھر قرآن اٹھوایا کہ آئندہ ایسا نہیں کرینگے۔ انور صاحب جو پہلے ہی عمروں کے نمایاں فرق کے باعث بیوی کے دبائو میں تھے مزید دبائو میں آ گئے۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا ، مجھے شدید دکھ ہوا۔ انور صاحب کا گناہ بیشک گناہ تھا لیکن ان سے قرآن اٹھوانے والی مسز توصیف کو اسکا کیا حق پہنچتا تھا؟ چھاج تو بولے پر چھلنی کیوں بولے۔

ہماری دنیا ، سارے معاشرے،سارے فرقے، سب کے نزدیک مجرم وہی ہے جو پکڑا جائے جو مہارت کیساتھ جی بھر کر گناہ کرے، جرائم کا مرتکب ہو لیکن پکڑا نہ جائے وہ متقی، پرہیز گار اور مومن ہے۔ بارہا یہ خیال آئے کہ انور صاحب کو جا کر انکی بیگم کے کرتوت بتا دوں، پھر سوچتا چلو انور صاحب پر ایک قیامت تو گزر چکی اب انہیں ایک اور قیامت سے کیوں دوچار کروں۔ جیسی بھی سہی انکی زندگی گزر تو رہی ہے، گھر بسا تو ہوا ہے۔ آخر میں راز افشا کرنے کی بجائے پردہ پوشی کرنے کو ترجیح دی۔ ایک عرصہ گزر جانے کیبعد آج مجھے یہ ساری باتیں پھر سے یاد آ گئی ہیں۔

lunch table

lunch table

دراصل ہوا یہ تھا کہ میں ہوٹل پر لنچ کرنے گیا تھا وہاں اچانک انکل انیس دو معزز بیگمات شمیم خانم اور رضیہ بیگم کیساتھ آن ٹپکے۔ رسماً یا مروتاً ہی نہیں میں نے انکل انیس کو دلی طور پر اپنے ساتھ لنچ کی دعوت دی جو بخوشی قبول کر لی گئی۔ دوران گفتگو پتہ چلا کہ لبرل سوچ رکھنے والے دوستوں نے مل کر خواتین کے حقوق کے سلسلے میں ایک نئی تنظیم قائم کی ہے۔ اس تنظیم کی نئی شاخیں کھولنے کیلئے اور کارکردگی بڑھانے کیلیے مختلف شہروں کا دورہ کیا جا رہا ہے۔ میرے ساتھ انکی ملاقات اتفاقیہ تھی اور اسے کھانے کی میز پر ہلکی پھلکی گپ شپ تک ہی محدود رہنا چاہیے تھا لیکن تنظیم سازی کے جوش میں میرے سامنے بھی انہوں نے خواتین کے حقوق کے مسئلہ پر رٹی رٹائی جوشیلی باتیں شروع کر دیں۔ میں خواتین کے حقوق کا مخالف نہیں ہوں۔ خواتین کو معاشرے میں انکا جائز مقام ملنا چاہیے۔ صدیوں سے روا رکھی جانیوالی ناانصافی کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن انکل انیس کے منہ سے خواتین کے حقوق کی باتیں مجھے اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔

ایک مرحلے پر میں نے ان سے پوچھا” اس انقلابی مہم میں مسز توصیف نے آپکا ساتھ نہیں دیا؟” ارے وہ تو نری مولوانی ہے۔ اسے ایسے انقلابی محاذ پر آنیکی ہمت ہی نہیں۔”
انکل انیس کا جواب سن کر جی چاہا کہہ دوں” انکل وہ مولوانی ہر گز نہیں ہیں۔ انہوں نے نماز اور تسبیح کی آڑ لے کر آپکے ساتھ ناجائز مراسم قائم کرنے کی ہمت کر لی تھی تو اس کارِ خیر میں آگے آنے کی ہمت کیوں نہیں کر سکتیں”۔ لیکن میں یہ بات نہ کہہ سکا۔ اسکی بجائے میں نے انہیں بتایا کہ ” جن عورتوں پر ظلم ہوتے ہیں وہ زیادہ تر دیہاتوں میں رہتی ہیں شہروں کے تنگ و تاریک محلوں میں رہتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ واقعی خواتین کے حقوق کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنی تنظیم کی بیگمات کو کام کرنے کیلئے دیہاتوں میں بھیجیے،شہروں کے پرانی اور تنگ و تاریک محلوں میں بھیجیے۔ سیٹلائٹ ٹائون اور اسطرح کی نئی آبادیوں میں مقیم خواتین بڑی حد تک اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔”
تب انکل انیس کی بجائے شمیم خانم نے مجھے ٹوکا اور بتایا کہ ” ماڈرن علاقے کی خواتین کے حقوق بھی پامال ہو رہے ہیں۔ ہم نے اپنا کام ابھی شروع کیا ہے۔ آہستہ آہستہ ہم پسماندہ محلوں اور دیہاتوں کیطرف بھی جائینگے۔ ہمیں اس غیر متوازن معاشرے کے متوازن بنانا ہے۔”
آپکے خیال میں یہ متوازن معاشرہ کیسے وجود میں آئیگا۔”
”جب مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر صرف انسان کی بات کی جائیگی۔”
” اگر یہ بات ہے تو پھر انسان کے زمرہ میں صرف مرد اور عورت کو ہی نہیں سمجھیں۔ مخنثوں کا بھی اس میں شامل کریں۔ انسانی برادری میں سب سے زیادہ تضحیک، ظلم اور استحصال کا شکار تو پھر مخنث طبقہ ہے۔”
” یہ طبقہ بھی مردانہ چیرہ دستی کا شکار ہے۔” اس بار رضیہ بیگم بولیں۔
” تو پھر آپ لوگ اپنی جدوجہد انکل انیس کے بغیر شروع کریں۔” میری بات سن کر انکل انیس نے قہقہہ لگایا لیکن انکے چہرے سے خفت عیاں تھی۔
” نہیں۔ ابھی ہماری جدوجہد ابتدائی مرحلے میں ہے اسلیے ہمیں ابھی صرف خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنا ہے اور کارِ خیر میں جو مرد حضرات ہمارا ساتھ دینگے ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے”۔ شمیم خانم نے بڑے سلیقے سے جواب دیا۔
” مرد ساری زندگی عیاشی کرتا رہے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ عورت سے زندگی میں ایک بار بھول ہو جائے تو اسکی ساری زندگی اجیرن کر دی جاتی ہے۔ ” رضیہ بیگم کے لہجے میں تلخی تھی۔ انہوں نے جیسے بات کا رُخ موڑنے کی کوشش کی۔ میں بھی اسی سمت مڑ گیا۔
تو کیا اس جدوجہد کا یہ مقصد ہے کہ چونکہ مرد عیاشی کرتے ہیں اسلیے عورتوں کو بھی عیاشی کرنے کا حق ملنا چاہیے۔”
” دیکھیں آپ اب شدید زیادتی پر اتر آئے ہیں۔ انکل انیس کے لہجے میں احتجاج تھا۔
” آپ مجھے یہ بتائیں کہ جسطرح مرد اپنی کسی رشتہ دار عورت کو قابل اعتراض حالت میں دیکھ کر غیرت کے نام پر قتل کر دیتا ہے۔ عورت کو بھی آپ ایسی ہی غیرت کا مظاہرہ کرنے کا حق دینگے۔ جب اسکا کوئی قریبی رشتہ دار ویسی ہی قابل اعتراض حالت میں پایا جائے؟” رضیہ بیگم کی بات میں خاصا وزن تھا لیکن میرا اندر کا مسئلہ تو انکل انیس کو زچ کرنے کا تھا اسلیے میں پینترا بدل کر بات سنبھالنی چاہی۔
” میں تمام معزز خواتین سے معافی چاہتا ہوں لیکن مجھے بتائیں کہ خواتین کے حقوق کیلیے کام کرنے کی دعوے دار خواتین میں کتنی ہیں جو عاصمہ جہانگیر کیطرح ٹھوس اور عملی کام کر رہی ہیں اور کتنی ہیں جو سیمیناروں اور دوروں کے ذریعے اپنے شوہروں کے بغیر دوسرے مردوں کیساتھ پتہ نہیں کہاں کہاں کی سیاحت فرما رہی ہیں۔ ”
” یہ تو آپ براہ راست ہماری توہین کر رہے ہیں۔ ” دونوں بیگمات ایکساتھ بولیں۔
” خواتین کے حقوق کی چیمپئین ایک عورت کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس نے اپنے جسم کو زینہ بنایا اور ترقی کی منازل طے کرتی گئی۔ جب عمر ڈھل گئی تو اعلیٰ افسران کو لڑکیاں سپلائی کرنے لگی۔ بڑی معروف عورت ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے سب کچھ کر گزرتی ہے۔ ”

justice

justice

” میرا خیال ہے کہ اب ہمیں یہاں مزید بیٹھنا نہیں چاہیے۔ ” انکل انیس یہ کہہ کر غصے کیساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ دونوں بیگمات بھی جلالی شان کیساتھ اٹھ گئیں۔
انکل انیس یہ سیدھی سادی بحث تھی لیکن آپ ناراض ہو ہی گئے ہیں تو جاتے جاتے یہ کڑوا سچ بھی سن لیجیے کہ خواتین کیلئے اتنے حقوق مانگیے جتنے آپ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو دے سکیں۔ کیا آپ اپنی ماں، بہن، بیوی، یا بیٹی کو یہ حق سینگے کہ وہ کسی اور انیس صاحب کیساتھ اسی طرح دورے کریں۔ ”
میری بات مکمل ہو چکی تھی۔ انکل انیس دونوں معزز خواتین کیساتھ ہوٹل سے باہر جا چکے تھے۔
بیرا چار کھانوں کو جو بل لایا تھا خاصا بھاری تھا لیکن بل ادا کرتے وقت میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے مسز توصیف سے اس زیادتی کا تھوڑا سا بدلہ لے لیا ہے جو انہوں نے انور صاحب کیساتھ کی تھی۔

تحریر:
حیدر قریشی