اور بل پاس ہوگیا

Imtiaz ali shakir

Imtiaz ali shakir

راجہ پرویزاشرف کے وزیراعظم منتخب ہونے سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے نتیجہ میں پیدا شدہ حکومتی خلاتو پرہوچکا لیکن سپریم کورٹ کا حکم اپنی جگہ جوں کا توں برقرار ہے کہ وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنا ہوگا ۔سپریم کورٹ کا علاج حکومت نے یہ نکالا کہ توہین عدالت اور دوہری شہریت کے قانون میں تبدیلی کرکے عدلیہ کے فیصلوں کو نہ مانا جائے۔بی بی سی کے مطابق آئینی ترامیم پر حکومت اور عدلیہ میں تنائو کا نیا سلسلہ شروع ہوگا حکومتی حکمت کی عملی کامیابی یقینی نہیں۔

توہین عدالت بل پر اتحادیوں میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور پی پی کے اہم رہنما بھی بل کی مخالفت کریں گے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق توہین عدالت اور دہری شہریت کے بل نے پیپلزپارٹی میں نیا محاذ کھول دیا ہے۔اہم رہنمائوں نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے پارٹی قیادت کو فی الحال یہ معاملہ نہ چھیڑنے کا مشورہ دے دیا ہے ۔اے این پی کے بعد فنکشنل لیگ نے بھی بل کی مخالفت کردی ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت توہین عدالت کے قانون میں ترامیم کرکے سپریم کورٹ کے ہاتھ باندھنے میں کامیاب ہوتی یا پھرراجہ پرویز اشرف سوئس احکام کو وہ سارے کیسز کھولنے کے لیے خط لکھیں گے جواین آراو کے تحت بند کردیے گئے تھے۔

عوامی رائے دیکھی جائے تو ایسا نہیں ہوگا ۔وہ اس لیے کہ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے بہت سی مشکلات کے باوجود سوئس حکام کو خط نہیں یہاں تک کہ توہین عدالت کے مرتکب ہوے اور تیس سیکنڈ کی سزا نے سید یوسف رضا گیلانی کو آئندہ پانچ سال کے لیے کسی بھی سرکاری عہدے کے لیے نا اہل کردیا ۔پھر بھی نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف سپریم کورٹ کا حکم مانتے ہوئے خط تو ضرور لکھیں گے لیکن ان تمام کیسز کا بنے گا کچھ نہیں۔

supreme court

supreme court

خیر جو بھی ہوراجہ پرویز اشرف نے وزیراعظم منتخب ہوتے ہی قوم سے ملک کو درپیش بحرانوں بلخصوص بجلی کے بحران کے خاتمے کا وعدہ کیا لیکن قوم کواچھی طرح یاد ہے کہ جب راجہ پرویز اشرف پیپلزپارٹی کے اسی دور حکومت میں ابتدائی برسوں میں پانی بجلی کے وفاقی وزیرتھے ۔انہوںنے قوم کے ساتھ واضح الفاظ میں وعدہ کیا اور بار بار اس وعدے کا اعادہ کیا تھا کہ 2009ء کے آخرتک ملک میں بجلی کے بحران کا خاتمہ کیا جائے گا۔آج 2012ء کے وسظ میں ملک کے اندر بجلی کے بحران کی جوصورت حال ہے اس کوسامنے رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان وعدوں کی حقیقت کیا تھی ۔راجہ جی کا وعدہ تھا کہ 2009ء کے آخر تک ملک میں بجلی کا بحران ختم ہوجائے گا لیکن 2009ء کی بجائے 2012ء بھی ختم ہونے کو ہے لیکن ملک میں بجلی کا بحران کم ہونے کی بجائے اور بھی بڑھتا جارہا ہے ۔

ان حالات میں ایک وعدہ شکن کا وزارت اعظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونا وہ جمہوری ادوار میں عوام کے زخموں پر نمک پاشی سے کم نہیں ۔اگر سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف دونوں کی شخصیت کو بلا امتیاز عوامی رائے کے مطابق دیکھا جائے تو سید یوسف رضا گیلانی عوام میں آج بھی زیادہ مقبول ہیں ۔عوامی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ سید یوسف رضا گیلانی چار سال تک ملک کو درپیش بیرونی مسائل میں الجھے رہے جس کی وجہ سے وہ اندرون ملک درپیش مسائل سے غافل رہے ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو ملک کے اندر اور باہر سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے ۔نائن الیون سے شروع ہونے والی عالمی دہشتگردی نے سب زیادہ پاکستان کو متاثر کیا ہے ۔جس کی وجہ سے آج پاکستان کاہر شہری نوجوان ‘بوڑھے ‘بچے اور خواتین سب ہی دہشتگردی پر گہری سوچ رکھتے ہیں ۔سب کی اپنی رائے ہے کسی کا خیال ہے کہ پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے کر اچھا کیا تو کسی کا خیال ہے کہ پاکستان کو افغان جنگ کا حصہ کسی بھی قیمت پر نہیں بننا چاہیے تھا ۔

yousuf raza gilani

yousuf raza gilani

میرے خیال میں ہمیں اب اس بحث سے نکل کر آج کی بات کرنی چاہیے کیونکہ اگر ہم صرف ماضی کے فیصلوں کو ہی زیربحث رکھیں گے تو پھر ہمیں اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ملے گا۔کل پریس کلب کاہنہ میں بھی دہشتگردی پر بحث ہورہی تھی ۔میں نے چیرمین پریس کلب جناب مرید حسین سیال سے سوال کیا کہ ہم پاکستان اور دنیا بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ کس طرح کرسکتے ہیں ۔چیرمین پریس کلب کاہنہ مرید حسین سیال کے مطابق جب تک دہشتگردی کی جڑوں کو نا کاٹاگیا تب تک دہشتگردی کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔ان کے نزدیک ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کو دہشتگردی سے پاک کرنا ہوگا کیونکہ ہم ساری دنیا کے ذمہ دار نہیں پاکستان ہماراگھر ہے ہمیں پاکستا ن سے دہشتگردی کو ختم کرکے دنیا کو یہ مسیج دینا چاہیے کہ ہم مسلمان بھی ہیں اور پاکستانی بھی لیکن دہشتگرد نہیں ۔مرید حسین سیال کے سامنے میں نے یہ سوال رکھا کہ ہم اکیلے کس طرح دہشتگردی کا مقابلہ کرسکتے ہیں ؟تو ان کا جواب یہ تھا یہ کوئی بات نہیں ہے۔

اگر ہم دہشتگردی کو ختم کرنا چاہتے ہیں توہمیں اپنی نوجوان نسل کو بہتر تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ مناسب روزگارمہیا کرنا ہوگا ۔بہتر تعلیم کا مطلب یہ نہیں کہ نوجوان بڑھی بڑھی ڈگریاں حاصل کریں بلکہ بہترتعلیم وہ ہے جس میں اسلامی اقدار کے ساتھ ساتھ زندہ رہنے کے لیے تمام ضروری ہنر سکھائے جائیں ۔چیرمین پریس کلب کاہنہ مرید حسین سیال کا خیال ہے کہ اگر ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ کردیا جائے تو نا صرف دہشتگردی بلکہ ۔تمام تر کرپشن’لوڈشیڈنگ ‘رشوت ستانی’اقربا پروری’سفارش ‘مہنگائی’جاگیردرانہ نظام’وڈیرہ سسٹم’گلا سڑا سرمایا درانہ نظام’وغیرہ وغیرہ کو بھی جڑ سے ختم کرنا بہت آسان ہوجائے گا۔اس کے لیے ہمیں نئی نسل کو منفی کی بجائے مثبت اندازے فکر دینا ہوگا۔ہماری نوجوان نسل کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ذہانت سے نوازا ہے ۔بے شک اس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں ۔جنگ کو بھی ایک وباء کہا جا سکتا ہے۔

pakistan

pakistan

وباوں کے سبب آفت زدہ ممالک کو ترقی یافتہ ممالک کی صفوں میں شامل ہونے کے لیے قدرزیادہ محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔کیونکہ جب آفتیں نازل ہوتیں ہیں تو ملکی وسائل تباہ و برباد ہوجاتے ہیں ۔صنعتی اور زرعی پیدوار ختم ہوجاتی ہے۔ایسے ملکوں کی اقتصادی حالت بدتر ہوجاتی ہے ۔جنگ کی تباہ کاریوں سے ملک کے چھوٹے بڑے منصوبے ختم ہوجاتے ہیں ۔فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوجاتے ہیں ۔فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں۔

بیروزگاری اوربیماریاں عام ہوجاتی ہیں ۔اس طرح ملک کی ترقی برسوں کے لیے رک جاتی ہے ۔ہم مسلمان ہیں اس لیے ہمیں تمام جدوجہد کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر بھی کامل یقین رکھنا چاہیے ۔کیونکہ ہر وقوع کے کچھ اسباب ظاہری ہوتے ہیں اور کچھ باطنی ۔اس لیے اس کی روک تھام کے لیے مادی اور باطنی دونوں ذرائع استعمال کرنا بے حد ضروری ہیں۔

مثال کے طور پر بیماری کے لیے ظاہر ی علاج دوا ہے اور باطنی سدباب اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے اور گناہوں کی بخشش مانگنا ہے ۔کیونکہ اکثر بیماریاں گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں۔اگر اسی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ہمارے اوپر مسلط حکمران بھی جان لیوا بیماری سے کم نہیں جو جھوٹ بولتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وعدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے جب قرآن میں ارشاد ہے کہ مسلمان جب کوئی عہد کریں پھرا پنا عہد پورہ کریں ۔بے شک حکمران ہمارے گناہوں کی سزا ہیں ۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ سب گناہ کرنا چھوڑ دیں ۔اس عمل کے لیے ہمیں خود پر جبر کرنا ہوگا کیونکہ ہم برسوں سے گناہ کرنے اور کرنے کے بعد ان پر فخر کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔تحریر: امتیاز علی شاکر