اپنی ہی آگ میں جلتا ہوا مغرب

سنہری بالوں والا آندرے بیرنگ بریوک اوسلو(ناروے) میں پیدا ہوا،اس نے اوسلو اسکول آف مینجمنٹ سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی اعلی تعلیم حاصل کی،وہ ایک کسان بھی ہے اور تاجر بھی،اس نے ایک زرعی کمپنی بھی قائم کی،جہاں وہ سبزیاں اور تربوز کاشت کرتا تھا،وہ پچیس سے تیس سال کی عمر کے درمیان دائیں بازو کی شدت پسندی کی طرف مائل ہوا،آج وہ اپنے آپ کو شدت پسند اور کٹر عیسائی کہتا ہے،وہ یورپ کے دیگر لوگوں کی طرح مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی اکثریت سے خوفزدہ ہے،ناروے کے اخبار وردن گینگ کے مطابق آندرے بیرنگ آن لان فورم میں حصہ لیتا تھا،جہاں وہ شدید قوم پرستانہ خیالات کا اظہار کرتا تھا، آندرے بیرنگ بریوک نے بظاہر عام قومی سروس کے علاوہ کوئی فوجی تربیت حاصل نہیں کی اور نہ ہی پولیس کے پاس اس کے جرائم کا کوئی ریکارڈ موجود ہے،فیس بک پر آندرے بیرنگ بریوک کے نام سے منسوب صفحے(جسے اب ہٹادیا گیا ہے) پر وہ اپنے آپ کو قدامت پسند عیسائی بتاتا ہے،اسی طرح یو ٹیوب پر اس سے منسوب ایک وڈیو جس میں اس نے اسلام،مارکسزم اور کثیر الثقافتی معاشرے کے خلاف غصے کا اظہار کیا تھاہٹادی گئی ہے۔ ناروے ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ وڈیو بریوک نے بنائی تھی،انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے اس کے پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان مخالف جذبات رکھتا ہے،نارویجن پولیس کے مطابق جمعہ22جولائی کو حملوں سے قبل آندرے بریوک نے انٹرنیٹ پر پندرہ سو صفحات پر مشتمل ایک مسودہ بھی شائع کیا تھا جس میں اس نے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپ میں کثیر الثقافتی رحجان نے قومی حمیت کو کمزور کیا ہے،ٹوئٹر پرآندرے بیرنگ بریوک سے منسوب ایک پیغام میں وہ فلسفی جان سٹیورٹ مل کا یہ قول دہراتا ہے کہایک صاحب ایمان شخص ایک لاکھ مفاد پرستوں کے برابر طاقت رکھتا ہے۔ ناروے پولیس کے مطابق اوسلو میں بم دھماکہ اور جزیرہ یٹویا کے یوتھ کیمپ پر فائرنگ کرکے 90سے زائد افراد کی جان لینے کا ملزم آندرے بیرنگ بریوک انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند خیالات کا حامی ہے،پولیس سربراہ کے مطابق 32 سالہ آندرے بیرنگ بریوک کے انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے پیغامات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ وہ دائیں بازو اور مسلمان مخالف خیالات کا حامی ہے۔ دوسری طرف ناروے میں قتل عام کرنے والے عیسائی دہشت گرد کی منظر عام پر آنے والی تازہ وڈیو میں اس کا یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ وہ بنیاد پرست عیسائیوں کی قدیم ترین خفیہ تنظیم نائٹ ٹیمپلرز کا ملکی سطح پر کمانڈر ہے،اس نے حملے سے قبل ایک باقاعدہ وڈیو بھی ریکارڈ کرائی جسے مشن پر روانہ ہونے سے چھ گھنٹے قبل انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا،اس کے بعد نائٹ ٹیمپلرز کے کمانڈر نے حملے کیلئے روانگی سے قبل فیس بک پر اپنے اکانٹ پر ایک تحریری پیغام بھی چھوڑا جس میں اس نے لکھا مجھے یقین ہے کہ یہ میرا آخری پیغام ہوگا،آج جمعے کا دن ہے،22جولائی اور 12بجکر51منٹ ہورہے ہیں(فقط اندرے بریویک ،نائٹ کمانڈر،نائٹ ٹیمپلرز برائے ناروے)یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ آندرے بریویک نے حملے سے 6گھنٹے 12منٹ قبل جو وڈیو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی تھی،اس میں وہ اسی لباس میں ہے جو اس نے حملے میں استعمال کیا،اِس وڈیو میں وہ واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ بہت سوچ وبچار کے بعد تیار کیے گئے پلان کے مطابق اب سے چھ گھنٹے بعد وہ اپنے خود کش مشن پر روانہ ہورہا ہے،اس کا مشن بارش کا پہلا قطرہ ہے اور یورپ میں ایک عیسائی انقلاب لانے کیلئے اس کے ساتھی اپنی کوشش جاری رکھیں گے۔ اس نے اپنے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے وہ کھاد اور آئل سے تیار کردہ کار بم اوسلو کے مرکزی علاقے میں پھاڑے گا،اس کے بعد وہ کشتی کے ذریعے جزیرے یوٹویا میں پہنچے گا،جہاں وہ اس وقت تک لوگوں کو قتل کرتا رہے گا جب تک اسے بھی قتل نہیں کردیا جاتا،اِس وڈیو میں اس کا کہنا ہے کہ وہ پولیس وردی اِس لیے استعمال کررہا ہے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جھٹکہ لگے،اس کا کہنا ہے کہ عیسائی انقلاب لانے کیلئے وہ کم از کم دس لاکھ افراد کو قتل کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے،اِس وڈیو میں اپنے حملے کاپورا منصوبہ جزیات کے ساتھ بتانے کے بعد اس نے ماضی قریب کے کچھ کلپس بھی وڈیو میں شامل کیے ہیں،ان کلپس میں وہ کھاد اور آئل سے بم بنانے کا تجربہ کررہا ہے،حفاظتی لباس میں موجودنائٹ ٹیمپلرز کمانڈر کے لباس پر نائٹ ٹیمپلرز کا سرخ نشان واضح ہے،وہ اپنا نمبر بتاتے ہوئے کہتا ہے کہ نائٹ ٹیمپلرز میں اس کا خفیہ کوڈ 2083ہے،اِس وڈیومیں وہ یہ بھی کہتا ہے کہ نائٹ ٹیمپلرز ختم نہیں ہوئے اور انہوں نے تیاری کے بعد ایک مرتبہ پھر مسلح جدوجہد شروع کردی ہے،اس کا کہنا ہے کہ نو سال کی محنت اور تین لاکھ یورو کی لاگت سے اس نے ایک لائحہ عمل تیار کیا ہے جس پر آنے والے عمل کرتے رہیں گے، عیسائی دہشت گرد کا مزید کہنا ہے کہ مسلح جدوجہد کا آغاز ناروے سے کرنا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے اور یہ غیر قانونی نہیں ہے وہ اور اس کے ساتھی یورپ میں ایک خالص عیسائی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد کرتے رہیں گے، جہاں کوئی مسلمان یا سیکولر شخص موجود نہ ہو،اِس سلسلے میں وہ خون کا پہلا قطرہ بہانے جارہا ہے ۔ عیسائی دہشت گرد کا مزید کہنا ہے کہ وہ یورپ میں جس جنگ کا آغاز کررہے ہیں وہ مہینوں،برسوں یا شائد کئی دہائیوں تک چلے،اِس میں بہنے والا سچے عیسائیوں کا خون نئی خالص عیسائی ریاست کیلئے بیج کا کام کرے گا اور بے ایمانوں کا خون کھاد کاکام کرکے گا،اپنی سفاکیت کے حوالے سے اس کا کہنا تھا کہ اِس قدر بڑے پیمانے پر لوگوں کو اچانک قتل کرنا یقینا سفاکی ہے مگر جولوگ عرصے سے سوئے ہوئے ہیں انہیں نیند سے جگانے کیلئے ایک بڑے جھٹکے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اِس قتل عام کے ذریعے یورپ کو بڑا جھٹکہ دینا چاہتا ہے،بارہ منٹ طویل وڈیو اور فیس بک پر اپنے انتہائی خطرناک پیغامات کے حوالے سے ناروے پولیس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انہیں وڈیو اور فیس بک پر موجود قاتل کے پیغامات مل گئے ہیں،ناروے پولیس سربراہ نے کسی تبصرہ سے گریز کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ یو ٹیوب کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حملہ آور کی وڈیو کو حملے سے قبل سینکڑوں افراد نے دیکھا،انہوں نے اِس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ جب قاتل نے اپنا منصوبہ انٹر نیٹ پر جاری کردیا تھا تو پھر کیوں پولیس اسے روکنے میں ناکام رہی،برطانوی اخبار ڈیلی میل اور اسکائی نیوز ٹی وی نے اپنی رپورٹس میں دعوی کیا ہے کہ نائٹ ٹیمپلرز کمانڈر برائے ناروے آندرے بیرنگ بریوک کے ساتھ انٹر نیٹ پر سات ہزار افراد یورپ بھر سے رابطے میں تھے اور اکثر اِس بات پر مباحثے کرتے تھے کہ کس طرح یورپ سے مسلمانوں اور سیکولر افراد کا خاتمہ کیا جائے،آندرے بریوک نے انٹر نیٹ پر جاری اپنے ایک لیکچر میں یہ بات بار بار دہرائی ہے کہ جب بھی حملہ کرو،انتہائی بڑا حملہ کروجس میں بہت زیادہ لوگ مارے جائیں اور ہمیشہ ایسا حملہ کرو جس میں صرف ایک یادو افراد ہی شامل ہوں ۔ الجزیرہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق قاتل کے فلیٹ کی تلاشی کے دوران پولیس کو ایسی دستاویزات بھی ملی ہیں جس نے پولیس کو دہلادیا ہے،ان دستاویزات میں 17صفحات پر مشتمل وہ منصوبہ بھی شامل ہے جس پر قاتل نے عمل کرتے ہوئے اوسلو میں دھماکہ کیا اور قریبی جزیرے پر جاکر قتل عام کیا،یہ منصوبہ کسی پیشہ ورفوجی کمانڈر کی طرف سے تیار کردہ لگتا ہے اور اِس میں حملے کی ہر جزیات طے کی گئیں ہیں،رپورٹ مزید کہتی ہے کہ شاید قاتل اور اس کے ساتھی یہی چاہتے تھے کہ یہ سب چیزیں پولیس اور پریس کے ہاتھ لگیں تاکہ ان کے حملے کے محرکات دنیا کے سامنے آئیں،فلیٹ کی تلاشی کے دوران قاتل کا ایک تحریری بیان بھی ملا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ وہ ناتو پاگل ہے اور نہ ہی جنونی قاتل،بلکہ وہ گزشتہ دس برسوں سے نائٹ ٹیمپلرز کا کمانڈر ہے،جدید جنگی حکمت عملی کا مطالعہ کرنااس کا مشغلہ ہے اور وہ جدید نظریات،فلسفے اور علم مذہب پر عبور رکھتا ہے،جنگی تیاری کیلئے وہ گزشتہ دس برسوں سے باڈی بلڈنگ اور تیراکی بھی کرتارہا ہے،ناروے پولیس کے مطابق قاتل نے پولیس کے سامنے قتل عام کا اعتراف کرلیا ہے،آندرے بیرنگ بریوک کے وکیل کا کہنا کہا ہے کہ ان کے موکل نے جمعہ کو ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور اپنی حرکت کو وحشیانہ مگر ضروری قرار دیا ہے،آندرے کا کہنا ہے کہ یہ حملے ناروے کے عوام کے لیے شاک سگنل ہیں،اس نے پیر کے روز اوسلو کی عدالت میں پیش ہوکر دونوں حملوں کا اعتراف بھی کیا ،مگر اپنے اوپر عائد الزامات کو قبول کرنے سے انکار کردیا،جس پر عدالت نے ہشتگردی اور عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کے الزامات کے تحت فرد جرم عائدکرتے ہوئے اسے آٹھ ہفتوں کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا،32سالہ آندرے بیرنگ بریوک کو ناروے کے موجودہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ21سال کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے ۔ قارئین محترم !ناروے میں پیش آنے والے متذکرہ واقعہ کا پس منظر چاہے جو بھی ہو لیکن آندرے بیرنگ بریوک کے اِس وحشیانہ قتل عام سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ آندرے بھی اسی خوف کا نمائندہ ہے جس نے یورپ کی بنیاد پرست صلیبی آبادی کی نیندیں حرام کررکھی ہیں کہ دن بدن مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ایک دن یورپ سے اس کی صلیبی شناخت چھین لے گی،اس کا طرز عمل اِس بات کا عکاس ہے کہ دوسرے مذاہب بالخصوص ہندوں اور مسیحیوں میں بھی ایسے شدت پسند موجود ہیں جو اپنے مذہبی مقاصد کی خاطر عالمی اور علاقائی امن تہہ بالا کرنے میں قطعا حجاب محسوس نہیں کرتے،آج مسلمانوں کے بارے میں مغرب،یورپ بالخصوص امریکہ میں جو نفرت انگیز تعصب پایا جاتا ہے،اسکے مظاہر انسانیت کے نام نہاد علمبردار مہذب معاشروں کے چہروں پر عیاں ہیں،اِس کے باوجود دنیا کے کسی کونے میں ہونے والے دہشت گردی کے ہر واقعے کے تانے بانے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ جوڑے جاتے ہیں،مغربی میڈیا پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ”All Muslims are not terrorists but all terrorists are Muslims”یعنی سارے مسلمان تو دہشت گرد نہیں ہیں لیکن سارے دہشت گرد ضرور مسلمان ہیں ۔ جبکہ اِس سے بڑا کوئی اور جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا،تاریخ کے طالب علم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ دہشت گردی کبھی بھی مسلمانوں کا شیوہ نہیں رہا،اسلام نے ہمیشہ امن اور بھائی چارے کا درس دیا،تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر دہشت گردی کے واقعات میں غیر مسلم ہی ملوث رہے ہیں،انیسویں صدی عیسوی میں شاید ہی کوئی ایسی دہشت گردی کی واردات ہوئی ہو جس میں کوئی مسلمان ملوث پایا گیا ہو،اگر حقائق کو سامنے رکھا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگتی کہ انفرادی اور ریاستی سطح پر دہشت گردی پوری دنیا میں ہوتی رہی ہے،اب بھی ہے اور آئندہ بھی رہے گی،حقائق بتاتے ہیں کہ اِس میں ہر طبقہ فکر کے لوگ ملوث تھے،ہیں اور رہیں گے،لیکن اس کے باوجود عالمی میڈیانے دہشت گردی کواِس طرح ہوا بنارکھا ہے جیسے یہ صرف اسلام اور مسلمانوں کی پیدا کردہ چیزہے،جبکہ سچائی یہ ہے کہ دہشت گردی کی ابتدا یہود،ہنود اور صلیبی حکمرانوں سے ہوتی ہے،خود بش کے منہ سےCrusade war یعنی صلیبی جنگ کے الفاظ اِس بات کے گواہ ہیں،شرمناک بات یہ ہے کہ وہ افغانستان میں روس کی بربریت ہو یاامریکہ کی ویتنام پر فوج کشی،وہ ہیرو شیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسانا ہو یا عراق اور افغانستان کی تباہی وبربادی،آج تک اِن انسانیت سوز واقعات کو کسی نے دہشت گردی قرار نہیں دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ نائن الیون سے پہلے دنیا بھر میں اِس قسم کے واقعات رونما ہوئے مگر کسی نے بھی انہیں دہشت گردی کا نام نہیں دیا،لیکن نائن الیون کے بعد عالمی تھانیدار امریکہ نے الفاظ کے معنی و مفہوم بدل کر ایک نئی لغت ایجاد کی اور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے دہشت گردی کے سارے تانے بانے اسلام اور مسلمانوں سے جوڑ دیئے،جب سچائی پر پردہ ڈالنے اور ایک حقیقت کو دو مختلف نظریوں سے دیکھا جائے تو کبھی بھی دہشت گردی کو جڑ سے ختم نہیں کیا جاسکتا،آج مغرب اور یورپ انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا جو الزام مسلمانوں پر لگا رہے ہیں دراصل وہ خود اسی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا شکار ہیں،مغربی حکومتیں اور وہاں کی عوام خود اسی تعصب اور انتہا پسندی کا شکار ہے،آندرے بیرنگ کا عمل بھی اسی کا شاخشانہ ہے اور اس نے یہ عمل اپنے حکمرانوں اورمیڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثرہوکر کیاہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلے امریکی میڈیا کے زیراثر یورپی میڈیا نے دہشت گردی کا رشتہ اسلام سے جوڑا،جس کے نتیجہ میں پورے یورپ اور امریکہ میں خوفزدگی کی نفسیات نے جنم لیا اور اسی خوف نے آندرے بیرنگ کے ذہن میں یہ کام کرڈالنے کابھوت سوارکردیا،اس نے اپنے منشورمیں بھی یہی کہا تھا کہ جو کام تم سمجھتے ہو کہ وہ ہوجانا چاہیے وہ خودکرجاو،اس نے اپنے مشورے پر عمل کیلئے لوگوں کو اکسایا اور ابتدائی تفتیش میں اس نے پولیس کو بھی یہی بتایا کہ اس کے مزید دو تین گروپس ہیں،اس نے اپنے پہلے بیان میں یہ اعتراف بھی کیا کہ اس کا اِس قسم کی ایک تحریک سے تعلق ہے اور برطانیہ کے لوگوں سے اس کا رابطہ ہے،لیکن اِس کے باوجود اسے تنہا ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،ناروے پولیس چیف مصرہیں کہ وہ تنہا تھا اور اس کا کسی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے،دوسری طرف پورا میڈیا،ناروے کے وزرااورحکومت آندرے کو ذہنی مریض قراردینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں،ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ناروے حکومت اور مغربی میڈیا یہ ثابت کرڈالے کہ آندرے بیرنگ تنہا اِس واردات کا ذمہ دار اور ذہنی مریض ہے اور عین ممکن ہے آندرے کو ذہنی مریض قراردے کر اس کی سزا جیل کے اسپتال میں گزارنے اورجلد رہائی کا موقع بھی پیدا کردیا جائے،جبکہ اِس کے برخلاف اگر اِس واقعہ میں کوئی مسلمان ملوث ہوتا ہے تو مغربی میڈیا اور حکومتیں فورا اس کا تعلق القاعدہ سے جوڑ دیتے ۔ ایک سوئیڈش ادارے ٹائم  کی ریسرچ کے مطابق آندرے بیرنگ کا منشور القاعدہ کے منشورکی نقل ہے،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ القاعدہ کا منشور تیارکرنے والوں اور آندرے بیرنگ کا منشور تیارکرنے والوں کی ذہنی ساخت ایک ہی ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ اِس واقعہ کا اصل محرک ا مریکی قیادت میں گزشتہ دس سال سے جاری اسلام مخالف مہم ہے،جہاں اِس مہم نے یورپ میں ایک طرف مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پھیلائی ہیں،وہیں بارباریورپ کو القاعدہ کے حملوں سے ڈراوے اور دنیا بھرمسلمانوں کو مشتبہ قراردینے کے عمل نے خوف کی نفسیات کو پروان چڑھایا ہے،جس کے نتیجے میں یورپ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت میں اضافہ ہو اور آندرے بیرنگ نے اسی خوف کا شکار ہوکر اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کا ارتکاب کیا،شاید وہ یہ بھول گئے کہ خوفزدہ انسان نہ صرف خود کو ہلاکت میں ڈالتا ہے بلکہ دوسروں کیلئے بھی ہلاکت کا سبب بنتا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تعصب،نفرت اور بغض و عناد کی اپنی ہی لگائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے،آج ناروے کے افسوسناک واقعات مذہبی تفاخر و تعصبات میں لپٹے ہوئے نام نہاد مہذب مغربی معاشروں کیلئے لمحہ فکریہ ہیں،اگر مغرب واقعی دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہے تو اسے دنیا کے تمام لوگوں کو ایک ہی نگاہ سے دیکھنا ہوگااور فتنہ پھیلانے والے افراد کو بلا امتیاز مذہب و ملت دہشت گرد قرار دے کر ایک ہی ترازو میں تولنا ہوگا،تب ہی جاکر دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔
تحریر : محمد احمد ترازی