اک اک پتھر جوڑ کے میں نے

man shadow

man shadow

اک اک پتھر جوڑ کے میں نے جو دیوار بنائی تھی
جھانکوں اس کے پیچھے تو رسوائی ہی رسوائی تھی

یوں لگتا ہے سوتے جاگتے اوروں کا محتاج ہوں
آنکھیں میری اپنی ہیں پر ان میں نیند پرائی ہے

دیکھ رہے ہیں سب حیرت سے نیلے نیلے پانی کو
پوچھے کون سمندر سے تجھ میں کتنی گہرائی ہے

آج ہوا معلوم مجھے اس شہر کے چند سایوں سے
اپنی راہ بدلتے رہنا سب سے بڑی دانائی ہے

توڑ گئے پیمانِ وفا اس دور میں کیسے کیسے لوگ
یہ مت سوچ قتیل کہ بس اک یار تیرا ہر جائی ہے

قتیل شفائی