ایک بیکار آنسو کی صورت گرے

condom tear

condom tear

ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا
اور بارود کی دھڑکنوں کے سہارے جیے
خود کو نفرت کے چشموں سے سیراب کرتے رہے
ایک شعلہ بنے
تاکہ آرامگاہوں میں پلتے ہوئے
بے حسوں کی حفاظت رہے
خواب گاہوں میں پردے لٹکتے رہیں
رقص جاری رہیں
تاکہ محلوں کے آقا کے دربار میں
ایک تالی سے سب کچھ بدلتا رہے
جتنے ایوان ہیں
دوسروں کے اشاروں کی تعظیم میں
سر ہلاتے رہیں
ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا
ایک شعلہ بنے
تاکہ بیٹوں کے لاشے تڑپتے رہیں
بین کرتی ہوئی بیٹیوں سے پرے
اپنے کشکول ہاتھوں سے لکھے ہوئے
عہد ناموں کی تحریر پڑھتے رہیں
ہم سے بہتر تھے وہ
جن کے ٹکڑے ہوئے
جو جنازوں کی صورت اٹھائے گئے
ایک بیکار آنسو کی صورت گرے
ہم وہ تلوار تھے
جو عجائب گھروں کے لیے رہ گئی
ایسی بندوق تھے
جس کو مفلوج ہاتھوں میں سونپا گیا

اقبال نوید