ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے

sad house

sad house

ایک ہی مژدہ صبح لاتی ہے
دھوپ آنگن میں پھیل جاتی ہے

رنگ موسم ہے اور بادِ صبا
شہر کوچوں میں خاک اُڑاتی ہے

فرش پر کاغذ اڑتے پھرتے ہیں
میز پر گرد جمتی جاتی ہے

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر
اب کسے رات بھر جگاتی ہے

سو گئے پیڑ جاگ اٹھی خوشبو
زندگی خواب کیوں دکھاتی ہے

آپ اپنے سے ہم سخن رہنا
ہمنشیں! سانس پھول جاتی ہے

کیا ستم ہے کہ تری صورت بھی
غور کرنے پہ یاد آتی ہے

کون اک گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے

جون ایلیا